شرعی طور پر مؤذن میں مطلوبہ اوصاف
Question
کیا شرعی طور پر مؤذن کے لیے کچھ مخصوص اوصاف مقرر کیے گئے ہیں؟ کیونکہ ایک شخص ہے جو گاؤں کی ایک چھوٹی مسجد میں پانچوں نمازیں ادا کرتا ہے اور ہر نماز کے وقت اذان بھی دیتا ہے، اور وہ پوچھ رہا ہے کہ شرعی طور پر مؤذن میں کون سے اوصاف مطلوب ہیں۔
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
اسلام میں مؤذن کا مقام
اذان اسلام کے شعائر میں سے ہے، جس کی ادائیگی کے لیے شریعت نے خصوصی ترغیب دی ہے اور اس کے اجر و فضیلت کو بیان کیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اگر لوگ اذان دینے اور صفِ اول میں نماز پڑھنے کے اجر کو جان لیں، تو انہیں ان مواقع کے لیے قرعہ بھی ڈالنا پڑے تو وہ ضرور قرعہ ڈالیں گے۔" متفق علیہ۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آذان دینے والے قیامت کے دن سب سے لمبی گردن والے ہوں گے۔" صحیح مسلم۔
اذان کی اہمیت اور اس کے بلند مقام کے پیشِ نظر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مؤذن امانت دار ہوتا ہے، کیونکہ لوگ اپنی نمازوں کے اوقات کے لیے اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''امام ضامن ہوتا ہے اور مؤذن امانت دار ہوتا ہے۔ اے اللہ! آئمہ کو ہدایت دے اور مؤذنین کو بخش دے۔" اسے امام ترمذی اور امام ابو داؤد نے ''سنن'' میں روایت کیا ہے۔
امام بدر الدین عینی رحمہ اللہ نے "شرح سنن الإمام أبي داود" (جلد 2، صفحہ 486، طبع: مكتبة الرشد) میں فرمایا: حدیث کے الفاظ ’مؤذن امانت دار ہے‘ کا مطلب یہ ہے کہ مؤذن مسلمانوں کی نمازوں اور روزوں کے اوقات کے بارے میں امین ہوتا ہے، کیونکہ لوگ اوقاتِ نماز کے آغاز اور اختتام کے سلسلے میں اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ مزید برآں، مؤذن اذان دینے کے لیے بلند مقامات پر چڑھتا ہے، جس کی وجہ سے اسے مسلمانوں کے گھریلو معاملات اور پردہ دار جگہوں کا علم ہو سکتا ہے۔
وہ شرائط جن کا موذن میں پایا جانا واجب ہے
اذان کی اس بلند مقام کو مدنظر رکھتے ہوئے، فقہاء نے اذان کے صحیح ہونے کے لئے کچھ شرائط مقرر کی ہیں جو اس عظیم عبادت کو مسجد میں ادا کرنے والے شخص میں پائی جانی چاہئیں، اور وہ یہ ہیں: مؤذن مسلمان ہو، اس لئے غیر مسلم کی اذان صحیح نہیں، اور مؤذن کا عاقل ہونا ضروری ہے، اس لئے مجنون اور جس پر نشہ یا غشی طاری ہو، یا غیر مُمیز بچے کی اذان صحیح نہیں ۔ یہ شرائط مذاہب اربعہ کے فقہاء کے درمیان متفق علیہا ہیں۔ اور جمہور فقہاء مالکیہ، شافعیہ اور حنبلیہ نے مزید اس شرط کو شامل کیا ہے کہ مؤذن کا مرد ہونا ضروری ہے، اس لیے ان کے مطابق مسجد میں عورت کی اذان صحیح نہیں ۔ تاہم، حنفیہ کے نزدیک یہ مؤذن کیلئے صفتِ کمال ہے، اذان کی صحت کے لئے ضروری شرط نہیں۔
امام زین الدین ابن نجیم حنفی نے "البحر الرائق" (جلد 1، صفحہ 278، طبع: دار الكتاب الإسلامي) میں فرمایا: عادل یعنی پرہیزگار ہو، مرد ہونا اور طاہر ہونا اذان کی صحت کی شرائط نہیں بلکہ یہ مؤذن کیلئے صفاتِ کمال ہیں۔۔ اور جہاں تک عقل کا تعلق ہے تو اسے اذان کی صحت کی شرط ہونا چاہیے، اس لیے غیر عاقل بچے، مجنون یا معتوہ کی اذان صحیح نہیں ہو گی۔ اور مسلمان ہونا بھی آذان کی صحت کے لیے شرط ہونا چاہیے۔"
امام ابو عبد اللہ خراشی مالکی نے "شرح مختصر خلیل" (جلد 1، صفحہ 231، طبع: دار الفكر) میں فرمایا: ''اذان کی صحت کی شرط یہ ہے کہ مؤذن مسلمان ہو، آذان مسلسل ہو، عاقل ہو، مرد ہو، بالغ ہو اور بالغ ہو۔"
امام تقی الدین حصنی شافعی نے "کفایہ الاخیار" (صفحہ 111، طبع: دار الخير) میں فرمایا: ''اذان کی شرط یہ ہے کہ مؤذن مسلم، عاقل اور مرد ہو۔"
امام ابن قدامہ حنبلی نے "المغنی" (جلد 1، صفحہ 300، طبع: مكتبة القاهرة) میں فرمایا: ''اذان صرف مسلم، عاقل اور مرد سے ہی صحیح ہو سکتی ہے۔"
اشترط جمہور فقہاء حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنبلیہ کے مطابق یہ شرط ہے کہ مؤذن مسجدِ عام کا مؤذن نماز کے اوقات سے واقف ہو، تاہم اس بات پر اختلاف ہے کہ یہ شرطِ صحت ہے یا شرطِ کمال ہے۔ اس شرط کا مقصد یہ ہے کہ مؤذن اذان کو اول وقت پر دے سکے، کیونکہ اگر وہ نماز کے اوقات سے ناواقف ہو گا تو اس سے غلطی کا امکان پیدا ہو گا اور لوگوں کے لئے اول وقت کی فضیلت کو ضائع کرے گا یا پھر وہ ان کی نماز اور روزے جیسی عبادت میں فساد کا سبب بنے گا۔
امام علاء الدین کاسانی حنفی نے "بدائع الصنائع" (جلد 1، صفحہ 150، طبع: دار الكتب العلمية) میں اذان کی سنتوں اور مؤذن کی صفات پر بات کرتے ہوئے فرمایا: ''ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ مؤذن نماز کے اوقات سے آگاہ ہو۔
امام شمس الدین الحطاب مالکی نے "مواهب الجلیل" (جلد 1، صفحہ 436، طبع: دار الفكر) میں فرمایا: ''ابن عرفة نے کہا: اگر اس کی اقتدا کی جائے تو اس کا وقت کا عالم ہونا واجب ہے، اور ابن ناجی نے 'شرح المدونة' میں اسے نقل کیا ہے، جبکہ فاکہانی نے 'شرح الرسالة' میں کہا: صفاتِ کمال یہ ہیں کہ مؤذن ۔۔۔۔ اوقات سے واقف ہو۔"
امام النووی شافعی نے "المجموع" (جلد 3، صفحہ 102، طبع: دار الفكر) میں فرمایا: "(قوله: ينبغي أن يكون عارفًا بالمواقيت) یعنی: شرط یہ ہے کہ مؤذن اوقات سے واقف ہو، اسی طرح 'التتمة' کے مصنف اور دوسرے علما نے اس شرط کو واضح طور پر ذکر کیا ہے۔"
امام ابن قدامہ حنبلی نے "المغنی" (جلد 1، صفحہ 301) میں فرمایا: ''مؤذن کا اوقاتِ نماز سے آگاہ ہونا مستحب ہے تاکہ وہ ان اوقات کا تعین کر سکے اور اول وقت میں اذان دے سکے، اور اگر وہ اوقات سے ناواقف ہو گا تو وہ غلطی اور خطا کر سکتا ہے۔"
عصر حاضر میں نماز کے اوقات سے آگاہی حاصل کرنا جدید ذرائع کے ذریعے آسان ہو چکا ہے، جیسے کہ وقت بتانے والی گھڑیاں، دیواری کیلنڈر، اور موبائل ایپلیکیشنز جو اذان کے اوقات بتاتی ہیں۔ یہ ذرائع فلکیات کے ماہرین اور اوقات کو درست طریقے سے طے کرنے والے افراد کی تفہیم اور شرعی وفلکی علامات معیرات پر مبنی ہیں۔ لہٰذا مؤذن کے لیے ان ذرائع پر اعتماد کرنا درست ہے، کیونکہ "مؤذن یا تو اوقات سے واقف ہوتا ہے، یا پھر اس کے پاس کوئی ایسا شخص ہوتا ہے جو اسے ان اوقات سے آگاہ کرے" جیسا کہ امام بدر الدین عینی نے "عمدة القاري" (جلد 5، صفحہ 140) میں ذکر کیا ہے۔
مؤذن کیلئے یہ بھی مستحب ہے، کہ اس کی آواز خوشگوار ہو تاکہ سننے والوں پر زیادہ اثر ہو اور وہ اس کی اذان پر لبیک کہنے کیلئے زیادہ مائل ہوں۔ محمد بن عبد اللہ بن زید نے اپنے والد سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا: حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کے والد سے روایت ہے کہ انہوں نے اذان کی تشریع کے واقعے میں فرمایا: جب ہم صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے تو میں نے آپ کو اپنا خواب بتایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "یہ سچا خواب ہے، تم بلال کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ کیونکہ اس کی آواز تم سے زیادہ بلند اور خوشگوار ہے، تو اسے وہ الفاظ سکھاؤ جو تمہیں بتائے گئے ہیں، اور وہ ان الفاظ کے ساتھ اذان دے۔" اسے امام ترمذی نے اپنی "سنن" میں روایت کیا ہے۔
اور مؤذن کا عادل یعنی پرہیزگار ہونا بھی ضروری ہے، کیونکہ عدالت تقویٰ کی ضامن ہے، اور یہ مؤذن میں مطلوب ہے۔ امام ترمذی اور امام ابو داود نے اپنی "سنن" میں حضرت ابو ہريرة رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: «وَالْمُؤَذِّنُ مُؤْتَمَنٌ» (مؤذن امانت دار ہوتا ہے)۔ اور یہ بات مسلم ہے کہ "امانت صرف تقویٰ والے شخص ہی ادا کر سکتے ہیں"، جیسا کہ امام علاء الدین کاسانی نے "بدائع الصنائع" (1/ 150) میں فرمایا۔ اس لیے فقہاء کے درمیان اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ مؤذن کا عادل یعنی پرہیزگار ہونا ضروری ہے، جیسے کہ امام ابن حزم نے "المحلى بالآثار" (2/ 179) میں ذکر کیا ہے۔
عورت کے لیے اپنے گھر میں یا خواتین کی جماعت کے لیے اذان دینے کا حکم
مؤذن کی وہ خصوصیات جو فقہاء نے شرط یا مستحب قرار دی ہیں، صرف مسجد میں لوگوں کے لیے اذان دینے والے پر لاگو ہوتی ہیں، لیکن گھر میں یا غیر مسجد میں عورت کا اپنے لیے یا خواتین کے گروہ کے لیے اذان دینا جائز ہے۔ یہ بات فقہاء کے جمہور کے مطابق ہے جن میں حنفیہ، شافعیہ اور حنبلیہ شامل ہیں۔ دیکھیے امام علاء الدین کاسانی کی "بدائع الصنائع" (1/ 150)، امام شمس الدین رملی کی "غاية البيان" (ص: 91) اور امام ابن قدامة کی "المغني" (1/ 300-306) ۔
مستقل مؤذن (راتب مؤذن) کے ہوتے ہوئے کسی شخص کا دینا
اگر وقت داخل ہونے پر مسجد میں مستقل مؤذن موجود ہو، تو کسی دوسرے شخص کو اُس مؤذن کے ساتھ اذان دینے میں مزاحمت کرنا جائز نہیں اور کسی کو اس کی اجازت کے بغیر اذان نہیں دینی چاہیے۔ یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ مسلمانوں میں اتحاد قائم رہے اور اللہ کے گھروں میں کام کے حوالے سے ترتیب اور نظام برقرار رہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ﴾ ترجمہ: اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ کمزور ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔ (سورۃ الأنفال: 46)۔
اس بنا پر اور واقعۂ سوال میں ہم کہیں گے کہ مسجد میں مسلمانوں کی باجماعت نماز کی خاطر آذان دینے والے شخص میں شرعاً یہ اوصاف مطلوب ہیں کہ وہ مرد ہو، مسلمان ہو، عاقل ہو، اور مؤذن جدید وسائل جیسے گھڑیاں، کیلنڈر، اور ایپلیکیشنز کے ذریعے اوقاتِ نماز معلوم کر سکتا ہو، جن کا انحصار ماہرینِ فلکیات کے فہم پر اور ان کے اس علمی اطلاق پر ہوتا ہے، جس کے ذریعے سے وہ شرعی علامات اور دقیق فلکی معیارات کے مطابق اوقات کو متعین کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کہ، مؤذن کا نیک نامی اور تقویٰ میں معروف ہو، اور اس کی آواز کا اچھا ہونا بھی مستحب ہے۔ یہ حکم اس وقت ہے جب وقت داخل ہو چکا ہو اور مسجد کا کوئی مستقل مؤذن - یا قوانین و ضوابط کے مطابق اس کا نائب- موجود نہ ہو، لیکن مسجد کا مؤذن اگر موجود ہو تو کوئی شخص اذان کے معاملے میں اس کے ساتھ مزاحمت نہیں کرے گا، اور اس کی اجازت کے بغیر اذان نہیں دے گا۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.