فتویٰ طلب کرنے میں گناہ کے ذکر کی حیثیت اور اس کا علانیہ اظہار
Question
کیا مستفتی (فتویٰ طلب کرنے والا) کا اپنا گناہ مفتي کو بتانا اعلانیہ گناہ کرنے میں شمار ہوگا؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
گناہوں میں مبتلا شخص کو کیا کرنا چاہیے
ہر انسان گناہ میں مبتلا ہو سکتا ہے، سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے معصوم بنایا ہے۔ ان کے علاوہ باقی تمام لوگ کسی نہ کسی شکل میں گناہ کا ارتکاب کر سکتے ہیں، چاہے گناہ کم ہوں یا زیادہ۔ گناہوں پر اصرار کرنا اور اس سے توبہ نہ کرنا شرعاً مذموم ہے، اور اس کے نتائج دنیا و آخرت میں نہایت خطرناک اور نقصان دہ ہیں۔ لہٰذا، جو شخص کسی گناہ میں مبتلا ہو، اس پر لازم ہے کہ فوراً توبہ کرے، ندامت کا اظہار کرے اور آئندہ اس گناہ کی طرف نہ لوٹنے کا پختہ عزم کرے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''ہر ابنِ آدم خطاکار ہے، اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں۔"
(اسے امام احمد، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے)۔
گناہ کو علانیہ کرنے کا حکم اور فتویٰ طلب کرنے میں گناہ کے ذکر کی حیثیت
گناہ کو اعلانیہ کرنے سے اس کی سنگینی بڑھ جاتی ہے، یعنی جب کوئی شخص کھلم کھلا گناہ کرتا ہے۔ یا انسان اسے چھپ کر انجام دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر پردہ ڈال دیتا ہے، مگر بعد میں وہ خود اس کا اظہار کر دیتا ہے اور اللہ کے اس پردے کو (العياذ بالله تعالى) ہلکا سمجھتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوا گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے اور گناہوں کو کھلم کھلا کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی (گناہ کا) کام کرے اور اس کے باوجود کہ اللہ نے اس کے گناہ کو چھپا دیا تھا مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا ہے۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپا دیا تھا، لیکن جب صبح ہوئی تو اس نے خود اللہ کے عطا کردہ پردے کو فاش کر دیا۔ (بخاری و مسلم)۔
پس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ "مجاہرہ" (گناہ کو اعلانیہ کرنا) کا ایک مطلب یہ ہے کہ انسان بلا کسی ضرورت یا حاجت کے اپنے گناہ کو ظاہر کرے اور دوسروں کو اس کے بارے میں بتائے۔
امام نووی رحمہ اللہ نے "شرح صحیح مسلم" (18/119، دار احیاء التراث العربي) میں فرمایا: حدیث میں مذکور "إِلَّا الْمُجَاهِرِينَ" سے مراد وہ لوگ ہیں جو جہراً گناہ کرتے ہیں، گناہوں کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو ان پر پردہ ڈال رکھا تھا، اسے خود ہی فاش کر دیتے ہیں، اور بلا کسی ضرورت و حاجت کے ان گناہوں کا ذکر کرتے ہیں۔
گناہ بتانے کی ضرورت اور حاجت کی صورتوں میں سے ایک صورت فتویٰ طلب کرنا بھی ہے، کیونکہ جب کسی شخص کو کوئی ایسا معاملہ پیش آ جائے جس کا حکم معلوم نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اہلِ علم سے اس کے بارے میں دریافت کرے تاکہ شرعی حکم جان سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مفتی کو پیش آنے والے واقعے کی مکمل تفصیل صحیح طور پر بیان کرے، کیونکہ کسی چیز پر حکم لگانا اس کے درست تصور پر مبنی ہوتا ہے۔ لہٰذا، اگر کوئی شخص اپنے گناہ کو محض سوال اور استفتاء کی نیت سے بیان کرے تو یہ مذموم نہیں، لیکن جب اعلانیہ کرنے، فخر جتانے یا استہزا کرنے کے طور پر ہو تو یہ ناجائز اور مذموم ہوگا۔
اس کی دلیل وہ واقعہ ہے جس میں ایک دیہاتی نے نبی کریم ﷺ کے سامنے اپنی شرعی خلاف ورزی کا ذکر کیا، جب اس نے رمضان کے روزے میں اپنی بیوی سے جماع کر لیا تھا۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے اسے بتانے سے منع نہیں کیا بلکہ کفارہ ادا کرنے کا حکم فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا: "یا رسول اللہ! میں ہلاک ہو گیا۔"
آپ ﷺ نے فرمایا: "تمہیں کس چیز نے ہلاک کر دیا؟"
اس نے عرض کیا: "میں نے رمضان (کے روزے) میں اپنی بیوی سے جماع کر لیا۔"
تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے کہ اسے آزاد کر دو؟"
اس نے کہا: "نہیں۔"
آپ ﷺ نے فرمایا: "کیا تم مسلسل دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو؟"
اس نے کہا: "نہیں۔"
آپ ﷺ نے فرمایا: "کیا تم ساٹھ مساکین کو کھانا کھلا سکتے ہو؟"
اس نے کہا: "نہیں۔" پھر وہ شخص بیٹھ گیا۔ اسی دوران نبی کریم ﷺ کے پاس کھجوروں سے بھرا ایک پیمانہ لایا گیا۔
آپ ﷺ نے اس شخص سے فرمایا: "اسے صدقہ کر دو۔"
اس نے عرض کیا: "مدینہ کے دونوں کناروں کے درمیان (یعنی پورے شہر میں) کوئی ایسا گھرانہ نہیں جو اس کا مجھ سے زیادہ محتاج ہو۔"
یہ سن کر نبی کریم ﷺ ہنس پڑے اور فرمایا: "جاؤ، اسے اپنے اہل و عیال کو کھلا دو۔"
(اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے)۔ حدیث میں "لَابَتَيْهَا" کا مطلب مدینہ کے دونوں کنارے ہیں۔
پس اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر وہ شخص جو کسی گناہ کا ذکر شرعی حکم معلوم کرنے، اس سے چھٹکارے کا راستہ دریافت کرنے، نیک دعا کی امید رکھنے، یا اس کے اسباب جان کر اس سے بچنے کے لیے کرے، یا کسی اور شرعی مقصد کے تحت بیان کرے، تو ایسا شخص قابلِ مذمت نہیں۔
علامہ مرتضیٰ الزبیدی نے حجۃ الإسلام امام غزالی سے "إتحاف السادة المتقين" میں نقل کیا ہے کہ: مذموم اظہار وہ ہے جو علی الاعلان اور استہزاء کے طور پر ہو، نہ کہ سوال اور استفتاء کی نیت سے، اس کی دلیل روزے کے باب میں مذکور وہ واقعہ ہے جس میں ایک شخص نےاپنی حالت کا نبی کریم ﷺ سے ذکر کیا، اور آپ ﷺ نے اس پر نکیر نہیں فرمائی۔
امام نووی رحمہ اللہ نے "الأذكار" میں فرمایا: اگر کوئی شخص کسی گناہ یا معصیت میں مبتلا ہو جائے تو اسے دوسروں کو اس کے بارے میں بتانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اسے چاہیے کہ فوراً اس گناہ کو ترک کرکے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ عالیہ میں توبہ کرے، اس پر ندامت کا اظہار کرے اور آئندہ اسے نہ کرنے کا پختہ عزم کرے۔ یہی توبہ کے تین ارکان ہیں، جو توبہ کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے شیخ یا کسی ایسے عالم کو اپنے گناہ کے بارے میں بتائے جس سے امید ہو کہ اسے اس گناہ سے نکلنے کا طریقہ سکھائے گا، یا اسے آئندہ بچنے کی تدبیر بتائے گا، یا اس گناہ میں مبتلا ہونے کا سبب واضح کرے گا، یا اس کے لیے دعا کرے گا، تو ایسا کرنا جائز بلکہ مستحسن ہے۔
خلاصہ:
اس بنیاد پر، اگر مستفتی مفتی کو اپنے کسی گناہ کے بارے میں بتاتا ہے تو یہ گناہ کے مذموم اظہار میں شامل نہیں ہوگا، بلکہ یہ مفتی کو واقعے کی مکمل تفصیل فراہم کرنے کے زمرے میں آئے گا، بشرطیکہ جس واقعے کا حکم معلوم کرنا مقصود ہو، وہ اسی گناہ سے متعلق ہو۔ جبکہ شرعی طور پر مذموم علانیہ اظہار وہ ہے جس میں گناہ کو فخر اور استہزاء کے طور پر ظاہر کیا جائے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.