شفا

Egypt's Dar Al-Ifta

شفا

Question


مریضوں کی شفا اور حاجات کے پورا ہونے کی نیت سے سورۃ الفاتحہ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ کیونکہ بعض لوگ اس بارے میں شدت اختتار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے۔ برائے مہربانی راہنمائی فرمائیں، اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
قرآنِ کریم کی تلاوت کی فضیلت

قرآنِ کریم کی تلاوت کی عظیم فضیلت اور بڑا اجر و ثواب ہے، اور یہ ایک ایسا نیک عمل ہے جس کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے کاموں میں آسانی اور حاجات کی تکمیل کے لیے دعا کی جاتی ہے۔ جو شخص قرآنِ کریم کو اپنا سہارا بناتا ہے، وہ دنیا و آخرت میں کامیاب اور سرخرو ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ﴾  ترجمہ: ''یقیناً جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور ہم نے جو کچھ انہیں دیا اُس میں سے خفیہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں، وہ ایسی تجارت کی امید رکھتے ہیں جو ہرگز نقصان نہیں اٹھائے گی۔" [فاطر: 29]

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''قرآن پڑھا کرو، کیونکہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کرے گا۔"
اس حدیث کو امام مسلم نے "صحیح مسلم" میں حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

سورۃ الفاتحہ کی فضیلت

سورۃ الفاتحہ قرآنِ کریم کی سب سے افضل اور سب سے عظیم سورت ہے، اور اس عظیم سورت کی فضیلت پر کئی نصوص دلالت کرتی ہیں۔ حضرت ابو سعید بن معلیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
"میں نماز پڑھ رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بلایا، لیکن میں نے جواب نہ دیا۔(جف میں گیا تو) میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: ﴿اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ﴾ یعنی: "اللہ اور رسول کے حکم کو لبیک کہا کرو جب وہ تمہیں بلائیں۔"
پھر آپ ﷺ نے فرمایا: '' کیا میں تمہیں قرآن کی سب سے عظیم سورت نہ سکھاؤں، اس سے پہلے کہ تم مسجد سے باہر نکلو؟"
پھر آپ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا، اور جب ہم مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے عرض کیا:
یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا تھا کہ آپ مجھے قرآن کی سب سے عظیم سورت سکھائیں گے۔
تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''الحمد للہ رب العالمین، یہی السبع المثانی (وہ سات آیات ہیں جو بار بار پڑھی جاتی) ہیں، اور یہی وہ عظیم قرآن ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔"

اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے "صحیح بخاری " میں روایت کیا ہے۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ''اے جابر! کیا میں تمہیں قرآن میں نازل ہونے والی سب سے بہترین سورت نہ بتاؤں؟"
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: کیوں نہیں، یا رسول اللہ!
تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"سورۃ الفاتحہ۔"
حدیث کے راوی کہتے ہیں کہ اور میرا گمان ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ''اس میں ہر بیماری سے شفا ہے۔"

اس حدیث کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب شعب الإيمان میں روایت کیا ہے۔

مجالسِ صلح اور اہم امور میں سورۃ الفاتحہ پڑھنے کا حکم

اس عظیم سورت یعنی سورۃ الفاتحہ کو دعا کے آغاز و اختتام پر پڑھنا، یا مجالسِ صلح کی ابتدا میں، یا لوگوں کے دیگر اہم کاموں کے آغاز میں پڑھنا، شرعاً جائز اور درست ہے۔ یہ حکم دو طرح کے دلائل کی بنیاد پر ثابت ہوتا ہے:

  1. عمومی شرعی دلائل جو قرآن کی تلاوت کے استحباب پر دلالت کرتے ہیں،
  2. اور خاص وہ نصوصِ شرعیہ جو سورۃ الفاتحہ کی خصوصیات پر دلالت کرتی ہیں، جیسے کہ اس سورت کا مقاصد کے حصول، حاجات کی تکمیل اور امور میں آسانی پیدا کرنے میں اثر ہونا۔

پہلے بیان ہو چکا ہے کہ قرآنِ کریم کی تلاوت کے استحباب پر عمومی دلائل موجود ہیں، جیسا کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث صحیح مسلم میں گزری،
اور اصولِ فقہ کے مسلمہ قواعد میں سے ہے کہ جب کسی حکم کو مطلق طور پر بیان کیا جائے تو وہ تمام اشخاص، حالات، اوقات اور مقامات پر محیط ہوتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:البحر المحيط في أصول الفقه از امام زركشي (جلد 4، صفحہ 174، دار الكتبي)، اور الأشباه والنظائر از امام سبكي (جلد 2، صفحہ 121، دار الكتب العلمية)۔ لہٰذا جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو عمومی یا مطلق انداز میں مشروع قرار دے، تو اُسے اُس کی وسعت کے ساتھ لیا جائے گا، اور بغیر دلیل کے اسے کسی خاص صورت کے ساتھ اس کو مخصوص کرنا یا کسی حالت سے مقید کر دینا درست نہیں ہے، ورنہ ایسا کرنا دین میں بدعت کے دروازے کھولنے کے مترادف ہوگا،
کیونکہ اس طرح انسان اس چیز میں تنگی پیدا کرتا ہے جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے وسعت کے ساتھ مشروع فرمایا ہے۔

اسی طرح یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عموم کے بعض افراد پر عمل کرنا، اس عمومی حکم کی تخصیص یا تقیید نہیں کرتا، جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے علاوہ کسی دوسرے عمل سے منع نہ کیا ہو۔ اسی بات کو اصولی علما اس طرح بیان کرتے ہیں:
"الترك ليس بحجة" یعنی: نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کسی کام کو چھوڑ دینا اس کے ناجائز ہونے کی دلیل نہیں ہے''۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی عمل کو نہیں کیا، تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ عمل جائز نہیں ہے۔  یہ بات پر سلفاً و خلفاً تمام مسلمان علما متفق علیہ ہیں

شیخ ابن تیمیہ حنبلی، اگرچہ وہ بدعتِ مذمومہ کے مفہوم میں وسعت رکھنے والے تھے، لیکن انہوں نے اس مفہوم کو اپنی عبادت میں صحیح طور پر سمجھا؛ چنانچہ وہ سورۂ فاتحہ کو اپنا وِرد بنایا کرتے تھے۔ چنانچہ ان کے شاگرد ابو حفص بزّار نے اپنی کتاب الأعلام العَلِيّة في مناقب ابن تيمية (صفحہ 38) میں نقل کیا ہے کہ شیخ ابن تیمیہ فجر کے بعد سورۂ فاتحہ کی تلاوت کرتے اور اسے سورج طلوع ہونے تک بار بار دہراتے رہتے تھے۔ اگر محض ترکِ عمل ہی حجت ہوتا تو ان کا یہ عمل بدعت اور سنت کے خلاف شمار کیا جاتا، لیکن چونکہ ذکر اور تلاوت کے معاملے میں وسعت ہے، اور اس میں اصل معیار یہ ہے کہ مسلمان اپنے دل کو کہاں حاضر پاتا ہے، اس لیے ان کا یہ عمل شرعاً جائز ہے۔

سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کو ذکر کے طور پر پڑھنے کا حکم

سورۃ الفاتحہ کو قرآن اور ذکر کے طور پر پڑھنا ایک ایسا عمل ہے جس کی تلاوت ہر حال میں مشروع ہے، جب تک کہ اس کے پڑھنے سے منع کرنے کے لیے کوئی خاص دلیل نہ ہو، جیسے کہ جنابت کی حالت میں قرآن کی تلاوت سے منع کیا گیا ہے۔

سورۃ الفاتحہ کو حاجات کی تکمیل، شفا اور دعا کی قبولیت کے لیے پڑھنے کا حکم

جہاں تک بات ہے کہ سورۃ الفاتحہ کو خاص طور پر مقاصد میں کامیاب ہونے، حاجات کی تکمیل، مریضوں کی شفا، امور کی آسانی اور دعا کے قبول ہونے کی نیت سے پڑھنے کی، تو شرعی نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس سورت میں ایسی خصوصیات ہیں جو اسی کے ساتھ خاص ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ﴾ الحجر: 87
" اور ہم نے تمہیں سات آیتیں دیں جو (نماز میں) دہرائی جاتی ہیں اور قرآن عظمت والا دیا۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''الحمد للہ رب العالمین، یہ سات آیات ہیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں، اور یہ وہ عظیم قرآن ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔" یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے "صحیح بخاری " میں حضرت ابو سعید بن معلیٰ رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔

حضرت عبادة بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "امّ القرآن (یعنی سورۃ الفاتحہ) دوسری سوتوں کا بدل بن سکتی ہے، لیکن دوسری کوئی اس کا بدل نہیں ہو سکتی۔"یہ حدیث دارقطنی نے السنن، حاکم نے المستدرك اور بیہقی نے القراءة خلف الإمام میں نقل کی ہے، اور حاکم نے کہا کہ اس حدیث کے راوی زیادہ تر آئمہ ہیں، اور ان میں سے ہر ایک ثقہ ہے، اور یہ حدیث بخاری و مسلم کے شرط پر ہے۔ اگرچہ اس حدیث سے نماز میں سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے وجوب پر استدلال کیا جاتا ہے، تاہم اس کا عمومی مفہوم سورۃ الفاتحہ کی خصوصیت کو دوسری سورتوں سے ممتاز کرتا ہے۔

چونکہ سورۃ الفاتحہ مقاصد کی تکمیل اور مریضوں کی شفا کے لیے مخصوص ہے، اس لئے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے اسے دم کرنے (یعنی رقیہ) کے طور پر استعمال کیا ہے، بغیر اس کے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابتداءً اُنہیں سورۃ الفاتحہ سے دم کرنے کی اجازت دی ہو، یا یہ تعلیم دی ہو کہ وہ اس سورت کو خاص طور پر مریضوں پر پڑھنے کے لیے استعمال کریں۔ جب حضرت ابو سعید خدری نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بارے میں بتایا، تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ تو ان کے عمل کو بدعت قرار دیا اور نہ ہی اس پر اعتراض کیا، بلکہ ان کے عمل کو پسند کیا اور اسے درست قرار دیا، اور فرمایا: ''وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ"  ''یہ تم کو کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ بھی ایک رقیہ (دم) ہے''۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے، اور صحیح بخاری میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: '' قَدْ أَصَبْتُمْ" یعنی "تم نے صحیح کیا۔"

امام ابن بطال رحمہ اللہ نے شرح صحیح بخاری (6/407-408، طبع: مكتبة الرشد) میں اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
"نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کہنا 'وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ' یہ ظاہر کرتا ہے کہ قرآن میں کچھ آیات خاص طور پر رقیہ (علاج) کے لیے مخصوص ہیں اور بعض ایسی بھی ہیں جو اس مقصد کے لیے نہیں ہیں۔ اگرچہ قرآن کا ہر حصہ برکت سے بھرپور ہے کیونکہ یہ اللہ کا کلام ہے، لیکن اگر کسی آیت میں پناہ طلب کرنا یا دعا شامل ہو، تو وہ آیات رقیہ کے لیے زیادہ مناسب ہوتی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ سوال 'وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ' دراصل ان کی علم کو جانچنے کے لیے تھا، کیونکہ ممکن ہے کہ 'الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِينَ' میں رقیہ کا مقام مخفی ہو۔ اور قرآن کی آیت 'وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ' [الفاتحة: 5] میں رقیہ (دم) کا مفہوم پایا جاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ سے تکلیف کے دور ہونے کی مدد مانگنا، کشائش طلب کرنا، اپنی طاقت سے بری الذمہ ہو کر اُس کی طرف رجوع کرنا، اور اُس کی مدد و نصرت کے محتاج ہونے کا اقرار کرنا، یہ سب دعاء کے مفہوم میں داخل ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی بعض مواقع پر سورۃ الفاتحہ پڑھنے کی ترغیب آئی ہے، جو ان کے اجتہاد اور اس بات کے علم کی بنیاد پر تھی کہ سورۃ الفاتحہ میں برکت ہے جو مقاصد میں کامیاب ہونے اور بیماریوں کی شفا میں مدد دیتی ہے۔ ابن ابی شیبہ نے ''المصنف'' میں حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا: ''جو شخص جمعہ کے بعد سورۃ الفاتحہ، سورۃ الاخلاص (قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ)، سورۃ الفلق (قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ)، اور سورۃ الناس (قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ) پڑھے، اللہ تعالیٰ اس جمعے اور اگلے جمعہ کے درمیان اس کی حفاظت فرماتا ہے۔"

مرضوں کے علاج اور حاجتوں کے پورا ہونے کی نیت سے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے جواز پر دلیل

 قراءة سورۃ الفاتحہ کو حاجات کی تکمیل اور مریضوں کی شفا کے لیے جائز قرار دینے کے لیے ایک دلیل وہ حدیث ہے جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جو امام مسلم نے صحیح مسلم میں اور دیگر محدثین نے روایت کی ہے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے نماز اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کی ہے، اور میرا بندہ جو مانگے گا اس کو ملے گا، جب انسان ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رب العالمین﴾ (شکرو ثنا کا حقدار کائنات کا آقا ہے) کہتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعریف اور شکریہ ادا کیا، اور جب وہ ﴿الرَّحمٰنِ الرَّحِیم﴾، (انتہائی مہربان، بار بار رحم کرنے والا) کہتا ہے، اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری ثنا بیان کی۔ جب وہ ﴿مالک یوم الدِّیْن﴾، (حساب و کتاب کا مالک) کہتا ہے، اللّٰہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی۔ اور بعض دفعہ (راوی نے کہا): بندے نے معاملات میرے سپرد کردیئے یا اپنے آپ کو میرے حوالہ کیا، جب انسان کہتا ہے، ﴿إِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِیَّاكَ نَستَعِین﴾ (ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں) اللہ فرماتا ہے، یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کو جو اس نے مانگا ملے گا، اور جب وہ کہتا ہے، ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ ہمیں راہ راست پر چلائے رکھ۔ ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو ان میں سے نہیں جن پر غضب ہوا اور نہ گمراہ ہیں۔ اللہ فرماتا ہے، یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو ملے گا، جو اس نے مانگا۔''

یہ حدیث اللہ تعالیٰ کی جانب سے بندے کی تمام درخواستوں کو قبول کرنے کا حکم عام اور شامل ہے، اور چونکہ یہاں "استعانہ" کا متعلّق (یعنی مدد طلب کرنے کی چیز) محذوف ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ عمومی طور پر ہر قسم کی مدد طلب کرنے کے لیے جائز ہے۔ اس سے یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے ذریعے ہر طرح کی حاجات میں اللہ سے مدد مانگنا جائز ہے۔ شیخ ابن عبد الہادی حنبلی نے اپنے رسالہ "الاستعانة بالفاتحة على نجاح الأمور" میں اس حدیث کو اس بات کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا کہ جس شخص نے بھی سورۃ الفاتحہ کو کسی ضرورت کے پورا ہونے کے لیے پڑھا اور اس کے ذریعے اپنی حاجت طلب کی، اللہ تعالی اس کی حاجت پوری کر دتیا ہے۔

اور امام مسلم نے اپنی "صحیح" میں، اور امام نسائی نے "السنن الكبرى" میں – اور دیگر محدثین نے بھی – حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے، انہوں نے فرمایا: "جبریل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک انہوں نے اپنے اوپر سے ایک آواز (دروازے کے کھلنے کی کھڑکھڑاہٹ) سنی، تو انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور کہا: 'یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج کھولا گیا ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا تھا۔' پھر اس دروازے سے ایک فرشتہ نازل ہوا اور جبریل نے فرمایا: 'یہ ایک فرشتہ ہے جو زمین پر اُترا ہے، اور اس سے پہلے کبھی نہیں اُترا تھا۔' وہ فرشتہ آیا، سلام کیا اور کہا: 'آپ کو بشارت ہو دو نُوروں کی، جو آپ کو عطا کیے گئے ہیں اور آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیے گئے: سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ کی آخری آیات۔ آپ ان دونوں میں سے کوئی بھی حرف پڑھیں گے تو آپ کو وہ ضرور دیا جائے گا۔''

علامہ محمد بن علان الصدیقی الشافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "دليل الفالحين لطرق رياض الصالحين" (جلد 6، صفحہ 200، طبع دار الكتاب العربي) میں فرمایا: "ان آیات کا استعانت کے طور پر پڑھنا جائز ہے؛ یعنی: "تم ان میں سے کسی بھی حرف کو مدد طلبی کے ارادے سے نہیں پڑھو گے" — یعنی ان دونوں (سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ کی آخری آیات) میں سے کسی جملے کو اپنی کوئی حاجت پوری ہونے کے لیے نہیں پڑھو گے — مگر یہ کہ تمہیں وہ چیز عطا کر دی جائے گی۔ کیوں نہ دیا جائے؟ جبکہ سورۃ الفاتحہ خود کافی ہے، اور سورۃ البقرہ کی یہ آخری آیات بھی جس نے رات کے وقت پڑھی ہوں، اس کے لیے کافی ہو جاتی ہیں۔  اور یہاں "حرف" سے مراد یا تو اس کا عام لغوی مطلب ہے، یعنی "کنارہ" — جس سے مراد ہر وہ جملہ ہے جو اپنے مفہوم میں مکمل ہو — تو مطلب یہ ہوگا: اگر وہ دعا پر مشتمل ہو، جیسے ﴿اهْدِنَا﴾ اور ﴿غُفْرَانَكَ﴾ جیسی آیات، تو تمہیں وہ چیز عطا کر دی جائے گی جو ان میں مانگی گئی ہے؛ اور اگر وہ دعا نہ ہو بلکہ تعریف اور تمجید پر مشتمل ہو، تو اس کا ثواب عطا کیا جائے گا۔"

اس پر سلف صالحین کا عمل بغیر کسی اعتراض کے رہا ہے؛ چناںچہ ابو الشیخ نے "الثواب" میں عطاء رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: "اگر تمہیں کوئی ضرورت ہو تو سورۃ الفاتحہ پڑھو یہاں تک کہ اسے مکمل کر لو، ان شاء اللہ وہ ضرورت پوری ہو جائے گی۔"

علامہ مُلّا علی قاری حنفی نے "الأسرار المرفوعة" (ص: 253، ط. مؤسسة الرسالة) میں فرمایا: [یہ اس بات کی اصل ہے جو لوگوں میں رائج ہے کہ سورۃ الفاتحہ کو حاجات کی تکمیل اور اہم کاموں کے لیے پڑھا جائے]۔

بیماروں کی شفا اور حاجات کی تکمیل کی نیت سے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں فقہاء کے اقوال

یہی موقف مشہور مذاہب کے فقہاء کا ہے؛ کیونکہ حنفی فقہاء نے مختلف امور میں سورۃ الفاتحہ پڑھنے کو پسندیدہ قرار دیا ہے، اس امید کے ساتھ کہ اس کی برکت حاصل ہو گی؛ مثلاً انہوں نے اسے کھانے کے لیے پسند کیا ہے۔ علامہ خادمی حنفی نے "بریق محمودیہ" میں کھانے کے آداب پر بات کرتے ہوئے کہا (4/ 111، ط. دار إحياء الكتب العربية): [جہاں تک سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کا تعلق ہے، تو بعض علماء نے علی القاری کی "شرح مختصر الإحياء" سے نقل کیا ہے کہ "سورۃ الفاتحہ کو پڑھنا، جو حمد اور دعا پر مشتمل ہے، جیسے کہ عوام میں رائج ہے، پسندیدہ ہے، برخلاف ان کے جو لوگ اس کو منع کرتے ہیں۔" انتہیٰ]۔

ان کے ہاں یہ بات معتمد علیہ ہے کہ فرض نمازوں کے بعد سورۃ الفاتحہ پڑھنا جائز ہے اور اسے اہم کاموں کو مکمل کرنے میں فائدہ مند سمجھا جاتا ہے۔ علامہ خادمی نے "بریق محمودیہ" (1/98) میں کہا: [جہاں تک فرض نمازوں کے بعد سورۃ الفاتحہ پڑھنے کا تعلق ہے، اس پر فقہاء کی مختلف آراء ہیں: "معراج الدراية" میں کہا گیا کہ یہ بدعت ہے، مگر یہ معمول کے طور پر پسندیدہ ہے اور اس پر روک نہیں لگانی چاہیے۔ "فتاویٰ برہان الدین" میں کہا گیا کہ فرض نماز کے بعد سورۃ الفاتحہ پڑھنا، چاہے بلند آواز سے ہو یا آہستہ، مکروہ ہے کیونکہ فرض نماز کے اندر پڑھی گئی سورۂ فاتحہ پڑھ  اہم امور کے لیے کافی ہے اور "فتاویٰ سعدی" میں کہا گیا کہ اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔]اور "التتارخانیہ" اور "القنیہ" اور "الأشباہ" میں ہے کہ فرض نمازوں کے بعد سورۃ الفاتحہ کی تلاوت، ماثور دعاؤں کو ان کے أوقات میں پڑھنے سے اولی ہے۔ اور ان ماثور اوقات میں سے ایک وقت نمازوں کے بعد کا وقت ہے؛ کیونکہ سید السادات سیدنا رسول اللہ عليه أفضل الصلوات وأكمل التحيات سے نمازوں کے بعد کئی دعائیں مروی ہیں، ۔اور "فصول الأسروشني" میں ہے کہ سورۃ الفاتحہ کی تلاوت، ماثور دعاؤں کو ان کے أوقات میں پڑھنے سے اولی ہے۔۔ جو بات ان اقتباسات سے اخذ کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اس عمل کو جائز قرار دینا زیادہ بہتر ہے؛ کیونکہ اس کے قائلین کی تعداد زیادہ ہے، اور بدعت ممنوعہ وہ ہوتی ہے جس کے لیے کسی اشارے یا دلیل کی اجازت نہ ہو۔ سورۃ الفاتحہ دعا کے راستے کی تعلیم دینے والی سورۃ ہے، یہ مانگنے کا طریقہ سیکھنے کی سورۃ ہے، اور یہ سورۃ بہترین دعا کے طریقے کی وضاحت کے لیے نازل ہوئی۔ لہٰذا اس کی تلاوت کے اصل جواز پر کوئی کلام نہیں۔

اور مالکیہ نے سفر کے وقت الوداع کے موقع پر سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کو جائز کہا ہے، کیونکہ یہ دل کو سکون بخشنے والی ہے۔ علامہ صاوی نے اپنی "حاشیہ على الشرح الصغیر" میں (1/487) لکھا: [جو کچھ الوداع کے موقع پر سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بارے میں کہا گیا ہے، شیخ عبد الرحمن التاجوری نے اس کا انکار کیا اور کہا کہ اس پر کوئی دلیل نہیں آئی۔ جبکہ علامہ اجہوری نے کہا: بلکہ اس کے جواز پر دلیلیں موجود ہیں، اور یہ قابلِ انکار نہیں ہیں]۔

اور شافعیہ کے ہاں: علامہ شہاب رملی شافعی کی "فتاوی" میں (1/160-161) آیا ہے: [اس میں ایسی خصوصیات ہیں جو دوسری سورتوں میں نہیں پائی جاتیں، یہاں تک کہ کہا گیا ہے کہ پورا قرآن اس میں شامل ہے، اور یہ پچیس الفاظ پر مشتمل ہے جو قرآن کے تمام علوم کو شامل کرتی ہے؛ کیونکہ یہ اللہ عزوجل کی صفاتِ کمال و جمال، عبادات کے احکام، اخلاص، اس کے سہارے کے بغیر کسی بھی کام کی تکمیل میں عاجزی کا اعتراف، ہدایت کے لیے اس سے دعا، اور منکروں کے انجام کو واضح کرتی ہے۔

اور اس کی عظمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم فرمایا ہے، اور نماز میں قراءت اس کے بغیر صحیح نہیں ہوتی، اور کوئی عمل اس کے ثواب کو نہیں پہنچ سکتا؛ اس معنی کے لحاظ سے اس سورت مبارکہ کو "أم القرآن" کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے کئی نام ہیں، اور زیادہ نام ہونا صاحبِ نام کی عظمت کی دلیل ہوتا ہے، اور اس کے ناموں میں یہ بھی شامل ہیں کہ اسے 'سورۃ الدعاء' (دعا کی سورت)، 'سورۃ المناجاة' (اللہ سے راز و نیاز کی سورت)، 'سورۃ التفويض' (اللہ کے سپرد کرنے کی سورت)، 'الراقیہ' (جھاڑ پھونک کرنے والی)، 'الشفاء' (شفا دینے والی)، اور 'الشافیة' (شفا بخش) کہا گیا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: «إنَّها لِكُلِّ دَاءٍ» (یقیناً یہ ہر بیماری کے لیے شفا ہے) اور علماء نے کہا ہے: جب تم بیمار ہو جاؤ یا کسی تکلیف کا شکار ہو جاؤ تو سورۃ الفاتحہ پڑھو، کیونکہ یہ شفا دیتی ہے۔

اور علامہ ابن حجر ہیتمی شافعی نے "الفتاوی الفقہیہ الکبریٰ" (4/29، ط. المكتبة الإسلامیہ) میں ذکر کیا کہ طاعون کی بیماری کے وقت سورتِ فاتحہ پڑھنا مستحب ہے کیونکہ یہ ہر بیماری سے شفاء ہے۔

اسی طرح حنبلیوں کے ہاں بھی یہی رواج تھا: امام احمد بن حنبل فاتحہ کو شرعی تعویذ میں لکھنے کا استعمال کرتے تھے۔ علامہ ابن مفلح حنبلی نے "الآداب الشرعیہ" (2/455، ط. عالم الكتب) میں کہا: [مرذی نے کہا: ایک عورت نے ابو عبد اللہ سے شکایت کی کہ وہ اکیلے گھر میں ڈرتی ہے، تو انہوں نے اس کے لیے بسم الله، فاتحة الكتاب، معوذتین، اور آية الكرسي لکھ کر تعویذ بنا کر دیا]۔

اور شیخ ابن تیمیہ حنبلی سے مذکور ہے کہ وہ فاتحہ کو اپنے صبح کے اذکار میں شامل کیا کرتے تھے۔ ان کے شاگرد شیخ ابن قیم حنبلی بھی مفتی کے لیے فتویٰ دینے کے وقت فاتحہ پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے، اور یہ بات انہوں نے بعض سلف سے نقل کی ہے، حالانکہ اس بارے میں کوئی خاص روایت نہیں آئی۔ وہ اپنی کتاب "إعلام الموقعين عن رب العالمين" (4/197-198، ط. دار الكتب العلمية) میں فرماتے ہیں: [مفتي کو چاہیے کہ وہ صحیح حدیث "اللَّهُمَّ رَبَّ جَبْرَائِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِي لِمَا اُخْتُلِفَ فِيهِ مِنْ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ، إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ" کا کثرت سے پڑھیں۔ بعض سلف کہا کرتے تھے: ﴿سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ﴾، اور بعض حضرات سورۃ الفاتحہ پڑھا کرتے تھے، اور ہم نے خود اس کو آزمایا تو ہم نے اسے درست بات تک پہنچنے کے سب سے مؤثر اسباب میں سے پایا۔"

پھر وہ "زاد المعاد" (4/318-319، مؤسسة الرسالة) میں فرماتے ہیں: [یہ سورت فاتحة الكتاب، اور ام القرآن، اور سبع المثانی، اور شفاءِ تام، اور فائدہ مند دوا، اور کامل دم، اور غنا و فلاح کا دروازہ، اور قوت کی محافظ، اور غم، خوف، اور حزن کو دور کرنے والی ہے؛ ہر اس شخص کے لیے جو اس کی قدر کو پہچان گیا، اس کا حق ادا کیا، اپنی بیماری پر اسے درست طریقے سے دم کیا، اور جان لیا کہ اس کے ذریعے شفا اور علاج کیسے ہوتا ہے، اور وہ راز جان لیا جس کی وجہ سے یہ سورت (ایسی عظمت والی) بنی ہے۔ اور جب بعض صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا، تو انہوں نے اس کے ذریعے زہر کے اثرات سے شفاء طلب کی تو وہ فوراً ٹھیک ہو گئے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: «وَمَا أَدْرَاكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ» (اور تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ  دم ہے؟)اور جس شخص کو توفیقِ الٰہی اور نورِ بصیرت سے نوازا گیا، حتیٰ کہ وہ اس سورت کے اسرار سے واقف ہو گیا... وہ جان گیا کہ اس کے معانی کا انسان کی دنیا و آخرت کی بھلائیوں کے حاصل کرنے اور برائیوں کے دور کرنے سے کتنا گہرا تعلق ہے، اور یہ کہ مکمل کامیابی اور کامل نعمتیں اسی سے وابستہ ہیں، اور ان کا حاصل ہونا اسی سورت پر عمل پیرا ہونے پر موقوف ہے ، اس پر عمل کر کے انسان بہت ساری دواوں اور دموں سے مستغنی ہو جاتا ہے، وہ اس کے ذریعے تمام خیر کے دروازے کھول لیتا ہے اور برے حالات کے اسباب کو روک لیتا ہے۔ اور یہ مقام اس وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان میں ایک نئی روحانی فطرت، تازہ فکر اور کامل ایمان پیدا ہو جائے۔

اور اسی پر عمل کرتے ہوئے سلف اور خلف کا طریقہ رہا، یہاں تک کہ شیخ یوسف بن عبد الہادی حنبلی، جو ابن المِبرد کے نام سے مشہور ہیں، نے اس موضوع پر ایک رسالہ تحریر کیا جس کا نام 'الاستعانة بالفاتحة على نجاح الأمور' رکھا۔ یہ رسالہ 'جمهرة الأجزاء الحديثية' (صفحہ: 371 سے 375 تک، طبع: مكتبة العبيكان) میں طبع ہوا ، جس میں انہوں نے علامہ ابن القیم کا وہ کلام نقل کیا جو سابقًا 'زاد المعاد' سے ذکر کیا گیا، پھر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا (صفحہ: 374-375): [یہ ایک عظیم کلام ہے، لیکن اس میں سورتِ فاتحہ کے فضائل میں سے محض اس قدر فضیلت بیان ہوئی ہے جیسے ایک پرندہ سمندر میں میں اپنی چونچ ڈالے یا اس سے ایک قطرہ پی لے۔] اور ہمارے شیخ ابو الفرج ابن الحبال کا یہ معمول تھا کہ آپ سورت فاتحہ کو حاجات کے پورا ہونے اور کاموں کی کامیابی کے لیے کثرت سے استعمال کرتے تھے؛ یہاں تک کہ جب کسی کیلئے کوئی تعویذ لکھتے، تو سب سے پہلے سورۃ الفاتحہ لکھتے، پھر اس پر اس سورت کی قراءت کرتے، پھر جب تعویذ کو لپیٹتے تو اس وقت بھی اس سورت کو پڑھتے۔ اور جب کسی کو خط لکھتے، تو اس پر بھی فاتحہ پڑھتے۔ میں نے خود بھی اس کے ذریعے کاموں کے کامیاب ہونے کی بڑی مثالیں دیکھی ہیں۔ اور میری زندگی میں دنیاوی اور اخروی حاجات کی کوئی بھی مشکل ایسی نہیں آئی جس پر میں نے فاتحہ پڑھ کر اس کا حل نہ پایا ہو۔ کتنی ہی حاجات ایسی تھیں جو پیچیدہ اور رکاوٹوں سے بھری ہوئی تھیں، جن پر میں نے فاتحہ پڑھی اور وہ پوری ہو گئیں، اور کتنے ہی معاملات تھے جو پیچیدہ ہو چکے تھے، میں نے اس سورت کو ان پر پڑھا تو وہ بادل چھٹ گئے، رکاوٹیں ختم ہو گئیں، اور کامیابی کے سورج طلوع ہو گئے۔ یہ سورت (یعنی سورۃ الفاتحہ) بہت عظمت والی ہے؛ پس اللہ آپ پر رحم فرمائے—اسے اپنے تمام معاملات، حاجات، بیماریوں، ضروری کاموں اور ہر اس چیز پر جس کا آپ کو سامنا ہو، بکثرت پڑھا کریں، اور اس پر غور کریں، تو آپ پر اس کے آثار و نتائج ظاہر ہوں گے۔ یہ ایک ایسی سورت ہے جس کے فضائل بہت زیادہ ہیں، اور اس کے راز بے شمار ہیں۔ اور جوہر کو وہی پہچانتا ہے جو جوہر شناس ہو، اور سکون کی جگہ کا پتا وہی لگاتا ہے جو اس کا مستحق ہو، اور علم سیکھنے والے ہی معلم کو پہچانتے ہیں۔ پس اللہ ہی سے میں مدد مانگتا ہوں، اور وہی توفیق بخشنے والا ہے۔

ان نصوص سے یہ ثابت ہوتا ہے اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ حاجات کی تکمیل اور بیماریوں سے شفاء کے لئے فاتحہ شریف پڑھنا شرعی طور پر جائز ہے، بلکہ یہ مستحب کاموں میں شامل ہے۔

رہی وہ آراء جو امت کے قدیم و جدید اجماعی عمل کے خلاف ہوں، اور جو وقتاً فوقتاً لوگوں کے درمیان ظاہر ہوتی ہیں، جن کا مقصد لوگوں پر اللہ تعالیٰ کے ذکر کو ان کے گھروں، مجلسوں، محفلوں اور اجتماعات میں تنگی پیدا کرنا ہوتا ہے—تو درحقیقت یہ آراء بدعت کے چشمے اور گمراہی کے راستے ہیں، قطع نظر اس کے کہ ان کے قائلین کی نیتیں کیا ہوں؛ کیونکہ مسلمانوں کے اُن رسوم و رواج کو مٹانے کی دعوت دینا جو اسلامی تہذیب نے زمانہ دراز میں ان کے طرزِ عمل، عادات اور روایات میں تشکیل دیے ہیں—اس بنیاد پر کہ شریعتِ مطہرہ ہی ان کی زندگی کا محور ہے—ایک نہایت خطرناک بات ہے۔ ان لوگوں نے یا تو اس کے انجام سے غفلت برتی یا جان بوجھ کر آنکھیں بند کر لیں کہ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ عوامی زندگی سے دینی مظاہر ختم ہو جائیں گے، اور ذکرِ الٰہی کو معاشرتی زندگی اور تہذیبی نظام سے خارج کر دیا جائے گا، اور یہی درحقیقت وہ بات ہے جس کی دعوت دہریے اور مادّہ پرست لوگ دیتے ہیں۔ پس اللہ سے ڈریں وہ لوگ جو ایسی باتیں کرتے ہیں جنہیں وہ جانتے ہی نہیں، اور فتویٰ کو اُن اہلِ علم کے سپرد کر دیں جو حالات کی پیچیدگیوں کو سمجھتے ہیں، اور احکام کے نتائج کو عقل سے پرکھتے ہیں۔"

خلاصہ

اس بناء پر سورۃ الفاتحہ کو حاجات کی تکمیل اور مریضوں کی شفایابی کی نیت سے پڑھنا شرعاً جائز ہے، اور یہی وہ طریقہ ہے جس پر امت کا قدیم و جدید زمانے میں عمل رہا ہے، اور ان اقوال کا کوئی اعتبار نہیں جو لوگوں پر ان چیزوں میں تنگی ڈالنا چاہتے ہیں جن میں شریعتِ مطہرہ نے وسعت دی ہے۔      

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas