حیض والی عورت کے لیے طوافِ وداع چھوڑنے کا حکم
Question
اگر عورت کو حیض آ جائے تو طوافِ وداع چھوڑ دینے کا کیا حکم ہے ؟ ایک سائلہ پوچھتی ہے کہ وقوفِ عرفات اور طوافِ زیارت کے بعد مجھے حیض آ گیا، اور میں طوافِ وداع ادا نہ کر سکی۔ تو کیا میرے ذمہ کچھ لازم آئے گا؟ کیونکہ بعض حجاج نے مجھے بتایا کہ بیت اللہ کا وداع کرنا ضروری ہے اور طوافِ وداع چھوڑنے پر دَم لازم ہوتا ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
جب مذکورہ عورت کو عرفات میں وقوف اور طوافِ زیارت کے بعد حیض آ گیا اور وہ طوافِ وداع ادا نہ کر سکی تو اس پر کچھ لازم نہیں آئے گا، اور طوافِ وداع کے چھوڑنے پر اس پر کوئی دَم بھی واجب نہیں ہوگا؛ کیونکہ حائضہ پر طوافِ وداع فرض نہیں ہے، چاہے وہ روانگی سے پہلے پاک ہو جائے یا نہ ہو۔
تفصیل:
طوافِ وداع کے حکم میں فقہاءِ کرام کے مذاہب
طوافِ وداع حج کے شعائر میں سے ہے۔ یہ وہ طواف ہے جو حاجی مناسکِ حج سے فارغ ہونے اور مکہ مکرمہ سے روانہ ہونے کے ارادے کے بعد ادا کرتا ہے، تاکہ اس کا آخری عمل بیت اللہ کا طواف ہو۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ لوگ (حج کے بعد) ہر طرف روانہ ہو جایا کرتے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی شخص (مکہ سے) نہ جائے یہاں تک کہ اس کا آخری عمل بیت اللہ کا طواف ہو" (متفق علیہ، اور الفاظ مسلم کے ہیں)۔
اور اسے "طوافِ وداع" اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے بیت اللہ کو الوداع کیا جاتا ہے۔
اسی وجہ سے علماء کرام کی ایک جماعت نے تصریح کی ہے کہ طوافِ وداع صرف اُس آفاقی مسافر کے لیے ہے جو مکہ سے روانہ ہو رہا ہو، نہ کہ مکہ مکرمہ کے رہنے والے یا حرم کے باشندوں کے لیے، اور نہ ہی اُس آفاقی کے لیے جو وہاں اقامت (مستقل رہائش) کا ارادہ کر چکا ہو؛ کیونکہ ان کے حق میں وداع کا معنی موجود نہیں، جبکہ وداع تو صرف اُس کے لیے ہوتا ہے جو جدا ہو رہا ہو، نہ کہ اُس کے لیے جو قیام پذیر ہو۔ جیسا کہ امام ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "المغنی" (جلد 3، صفحہ 403، مطبوعہ: مکتبہ قاہرہ) میں بیان فرمایا ہے۔ اور طواف وداع کو "طوافِ صدر" بھی کہا جاتا ہے؛ کیونکہ انسان اس کے بعد (مکہ سے) واپسی کرتا ہے۔
طوافِ وداع احناف اور حنابلہ کے نزدیک - صحیح قول کے مطابق - واجب ہے، اور شوافع کے نزدیک بھی ظاہر قول کے مطابق واجب ہے، اس کے ترک پر دم (قربانی) لازم آتا ہے۔ جبکہ مالکیہ کے نزدیک یہ سنت ہے، اور یہی رائے امام داود، ابن المنذر، اور مجاہد کی ایک روایت میں منقول ہے،
اور شوافع اور حنابلہ کے ہاں بھی ایک دوسرا قول یہی ہے کہ: طوافِ وداع واجب نہیں، یعنی جو شخص اسے چھوڑ دے، اس پر کچھ لازم نہیں آتا، اس کا حج درست ہے، البتہ وہ فضیلت سے محروم رہتا ہے۔ اور یہی قول فتویٰ کے لیے مختار ہے۔ ملاحظہ ہو: المبسوط، للسّرَخسي (4/ 34-35، ط۔ دار المعرفة)، ارشاد السالک" لابن فرحون (1/ 471، ط۔ مكتبة العبيكان)، الأم للإمام الشافعي (2/ 197، ط۔ دار المعرفة)، التنبيه للشيرازي (ص: 79، ط۔ عالم الكتاب)، المجموع" للنووي (8/ 253-284، ط۔ دار الفكر)، المغني" لابن قدامة (3/ 403-404)، اور "الفروع" لابن مفلح (6/ 70، ط۔ مؤسسة الرسالة)۔
حائضہ کے لیے طوافِ وداع چھوڑنے کا حکم:
فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے — خواہ وہ طوافِ وداع کو واجب کہنے والے ہوں یا سنت کہنے والے — کہ حائضہ پر طوافِ وداع لازم نہیں؛ اس لیے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ''لوگوں کو یہ حکم دیا گیا کہ ان کا آخری عمل بیت اللہ کا طواف ہو، سوائے حائضہ کے کہ اس کے لیے تخفیف کی گئی ہے۔" (متفق علیہ، اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں)۔
اور اس پر ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت بھی دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے فرمایا: صفیہ بنت حُييّ رضی اللہ عنہا — جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ تھیں — کو افاضہ (یعنی طوافِ زیارت) کے بعد حیض آ گیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے صفیہ کے حیض کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا،
تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: : ”کیا وہ ہمیں (واپسی سے) روکنے والی ہیں؟“ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! وہ (طواف افاضہ کے لیے) گئی تھیں اور بیت اللہ کا طواف کیا تھا پھر (طواف) افاضہ کرنے کے بعد حائضہ ہوئی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو (پھر ہمارے ساتھ ہی) کوچ کریں۔“ (متفق علیہ، اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں)۔
اور امام نووی رحمہ اللہ نے اس پر اتفاق نقل کیا ہے، چنانچہ انہوں نے اپنی کتاب "المجموع" (8/284) میں فرمایا:
"ہمارے مذہب کے مطابق حیض والی عورت پر طواف وداع واجب نہیں ہے۔ ابن المنذر رحمہ اللہ نے کہا: اسی پر اہلِ علم کی اکثریت کا قول ہے، جن میں امام مالک، اوزاعی، ثوری، احمد، اسحاق، ابو ثور، ابو حنیفہ اور دیگر علماء شامل ہیں۔"
امام جصاص حنفی رحمہ اللہ نے "شرح مختصر الطحاوی" (2/542، طبع دار البشائر الإسلامية) میں فرمایا: حائضہ عورت طوافِ صدر (یعنی طوافِ وداع) چھوڑ سکتی ہے اور مکہ سے نکل سکتی ہے، اور اس پر کچھ لازم نہیں آتا؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو طوافِ صدر کیے بغیر روانہ ہونے کا حکم دیا تھا، اور آپ ﷺ نے ان پر کوئی چیز لازم نہیں کی۔"
امام ابن عبد البر مالکی رحمہ اللہ نے "الکافی" (1/378، طبع مکتبۃ الریاض الحدیثہ) میں فرمایا: کوئی شخص اپنے وطن کی طرف واپس نہ جائے جب تک کہ بیت اللہ کا سات چکروں کے ساتھ طواف کرکے اسے وداع نہ کرے؛ کیونکہ یہ ایک سنت اور عبادت ہے جو صرف حائضہ عورت سے ساقط ہوتی ہے۔"
امام رافعی رحمہ اللہ نے "العزیز شرح الوجیز" (3/448، طبع دار الکتب العلمیۃ) میں فرمایا: حائضہ عورت پر طواف وداع لازم نہیں؛ کیونکہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو حیض آ گیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بغیر طوافِ وداع کے روانہ ہونے کی اجازت دی۔"
اور شرف الدین ابوالنجا حجاوی حنبلی رحمہ اللہ نے "الإقناع" (1/395، طبع دار المعرفۃ) میں فرمایا: حائضہ اور نفاس والی عورت پر وداع لازم نہیں۔"
خلاصہ
لہٰذا: حائضہ پر طواف وداع ضروری نہیں ہے، اور نہ ہی اس کے ترک پر کوئی دم لازم آتا ہے، چاہے وہ طواف سے قبل پاک ہو جائے یا نہ ہو۔ یہ فتویٰ اس مختار قول پر ہے کہ طوافِ وداع سنت ہے اور اس کے ترک پر کوئی چیز لازم نہیں آتی۔
سوال کے مطابق: چونکہ مذکورہ خاتون کو وقوفِ عرفات اور طوافِ زیارت کے بعد حیض آ گیا تھا اور وہ طوافِ وداع نہیں کر سکی تھی، تو ان پر کچھ نہیں، اور نہ ہی اسے ترک کرنے پر اس عورت پر کوئی دم واجب ہوتا ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.