مسلمانوں کے قبرستان کے پاس سے گزرتے وقت کیا کہا جائے
Question
مسلمانوں کے قبرستان کے پاس سے گزرتے وقت کیا پڑھنا چاہیے؟ میں اپنی گاؤں میں قبرستان کے قریب سے اکثر گزرتا ہوں کیونکہ وہ سڑک کے قریب ہے، اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اس موقع پر پڑھی جانے والی اذکار یا دعاؤں کی وضاحت فرمائیں۔ کیا یہ عمل صرف مَردوں کے لیے ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ قبرستان کے پاس سے گزرتے وقت یہ کہنا مسنون ہے: "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ" (اے ایمان والی قوم کے گھرانے! تم سب پر سلامتی ہو اور ہم بھی ان شاء اللہ تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں)۔ نیز ان کے لیے رحمت، مغفرت اور دیگر بھلائی کی دعائیں کرنا بھی جائز ہے۔ اسی طرح سورۃ الفاتحہ یا "قُلْ هُوَ اللهُ أَحَد" پڑھ کر اس کا ثواب قبرستان والوں کو پہنچانا بھی درست ہے، کیونکہ اس حکم میں وسعت ہےاور اس میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں۔
تفصیلات:
شریعتِ مطہرہ کا فوت شدگان کے لیے دعا کرنے کی ترغیب
شریعتِ مطہرہ نے فوت شدگان کے لیے دعا کرنے کی ترغیب دی ہے، اور اس پر کتاب وسنت کے نصوص دلالت کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ﴾ ترجمہ:"اورجو ان (مہاجرین) کے بعد آئے وہ دعا مانگا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارےان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں"
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی نمازِ جنازہ پڑھتے تو فرمایا کرتے: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا، وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا، وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا، اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ، وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيمَانِ» ترجمہ: " اے اللہ! تو بخش دے، ہمارے زندوں اور ہمارے مردوں کو، ہمارے چھوٹوں اور ہمارے بڑوں کو، ہمارے مردوں اور ہماری عورتوں کو، ہمارے حاضر اور ہمارے غائب کو، اے اللہ! تو ہم میں سے جس کو زندہ رکھے اسلام پر زندہ رکھ، اور ہم میں سے جس کو موت دے اسے ایمان پر موت دے، "۔ اسے ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ دعا میت کو فائدہ پہنچاتی ہے اور اس کا ثواب اسے ملتا ہے۔ ملاحظہ ہو: "الأذکار" امام نووی (ص 164، طبع دار الفکر)، "عمدة القاري" امام عینی (جلد 3، ص 119، طبع دار إحياء التراث العربي)، اور "شرح متن الرسالة" امام زروق (جلد 1، ص 434، طبع دار الكتب العلمية)۔
مسلمانوں کے قبرستان کے پاس سے گزرتے وقت کیا کہا جائے؟
سنت یہ ہے کہ جب انسان قبروں پر آئے یا ان کے پاس سے گزرے تو اہلِ قبور کو سلام کرے۔ جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ قبرستان میں تشریف لائے تو فرمایا: "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ" (اے ایمان والی قوم کے گھرانے! تم سب پر سلامتی ہو اور ہم بھی ان شاء اللہ تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں)۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اہلِ قبور کو سلام کہنا مستحب ہے۔
امام ابن ابی زید القیروانی نے "النوادر والزیادات" (جلد 1، ص 655-656، طبع دار الغرب الإسلامي) میں فرمایا: "اہلِ قبور کو سلام کرنے پر اس سنت سے دلیل ملتی ہے جو نبی اکرم ﷺکو اور سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کو ان کی مبارک قبروں پر سلام کہنے کے بارے میں وارد ہے، اور یہ کہ نبی ﷺ اُحد کے شہداء کی قبروں پر تشریف لے گئے، تو انہیں سلام کہا اور ان کے لیے دعا فرمائی"۔
یہ استحباب صرف زائر (قبر کی زیارت کرنے والے) کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ قبرستان کے پاس سے گزرنے والے کو بھی شامل ہے، لہٰذا اس کے لیے بھی مستحب ہے کہ سلام کہے، مذکورہ دعا پڑھے اور اہلِ قبور کے لیے جو چاہے دعا کرے۔
امام رویانی نے "بحر المذهب" (جلد 2، ص 602، طبع دار الكتب العلمية) میں فرمایا: "جب کوئی قبرستان کے پاس سے گزرے تو مستحب ہے کہ اہلِ قبور کو سلام کہے، اور یوں کہے: السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون"۔
قبرستان کے پاس سے گزرتے وقت اہلِ قبور کے لیے دعا کرنے کے معاملے میں وسعت ہے، یعنی جس طرح وارد شدہ مسنون دعا جائز ہے، اسی طرح کوئی اور دعا بھی کر سکتا ہے۔ چنانچہ امام حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: "جو شخص قبرستان میں داخل ہو کر یہ دعا کی: (اے اللہ! اے ان بوسیدہ جسموں اور گلی سڑی ہڈیوں کے رب! جو کہ اس دنیا سے ایمان کی حالت میں رخصت ہوئے، ان پر اپنی طرف سے راحت اور سلامتی نازل فرما)، تو اس کے حق میں ہر وہ مومن دعاے مغفرت کرتا ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے لے کر آج تک دنیا سے جا چکا ہے"۔ اسے ابن ابی شیبہ نے اپنی "المصنف" میں روایت کیا ہے۔
جو شخص قبرستان کے پاس سے گزرے، اس کے لیے سورۃ الفاتحہ یا "قُلْ هُوَ اللهُ أَحَد" گیارہ مرتبہ پڑھنا بھی جائز ہے، بلکہ سلف سے منقول ہے کہ یہ عمل، پڑھے والے کے گناہوں کی اس تعداد کے برابر مغفرت کا سبب بنتا ہے جتنی تعداد میں قبرستان میں میتیں ہیں۔
امّ عفیف نہدیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: "ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس وقت بیعت کی جب آپ نے عورتوں سے بیعت لی، تو آپ ﷺ نے ہم سے یہ عہد لیا کہ ہم کسی غیر محرم مرد سے بات نہ کریں، اور ہمیں حکم دیا کہ ہم اپنے فوت شدگان پر سورۃ الفاتحہ پڑھیں"۔ اسے طبرانی نے "المعجم الكبير" میں روایت کیا ہے۔ اسی طرح امّ شریک رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: "رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم جنازے پر سورۃ الفاتحہ پڑھیں"۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
علامہ جمل نے "حاشیہ على شرح المنهج" (جلد 2، ص 210، طبع دار الفكر) میں فرمایا: "(فائدہ) سلف سے منقول ہے کہ جو شخص سورۃ الإخلاص گیارہ مرتبہ پڑھے اور اس کا ثواب پورے قبرستان کو پہنچا دے، تو اس کے گناہ قبرستان میں موجود مردوں کی تعداد کے برابر معاف کر دیے جاتے ہیں، اور سلف سے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول بھی منقول ہے کہ اسے اتنا اجر دیا جاتا ہے جتنے اس قبرستان میں مردے ہیں"۔
اس حکم میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں، لہٰذا عورت کے لیے بھی جائز ہے کہ قبرستان کے پاس سے گزرتے وقت دعا کرے۔ اس کی اصل امّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں انہیں (اہلِ قبرستان کو) کیا کہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "کہو: السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَيَرْحَمُ اللهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَلَاحِقُونَ" (سلام ہو تم پر اے مومنین اور مسلمین کی بستی کے باسیو، اور اللہ ہم میں سے پہلے گزرنے والوں اور بعد میں آنے والوں پر رحم فرمائے، اور ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں) ۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
یہی دعا عورت کے لیے بھی ہے جب وہ قبر کی زیارت کو جاۓ، کیونکہ قبر پر پڑھی جانے والی دعا کے معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق وارد نہیں ہوا۔
علامہ ملا علی قاری نے "مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح" (جلد 4، ص 1255، طبع دار الفكر) میں بعض ان احادیث پر تبصرہ کرتے ہوئے جو عورتوں کے لیے زیارتِ قبور کے جواز پر دلالت کرتی ہیں، فرمایا: " ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قبروں کی زیارت کے معاملے میں عورتوں اور مردوں کا حکم یکساں ہے، البتہ عورتیں وہ شرائط ملحوظ رکھ کر زیارت کریں جو ان کے لیے مقرر کی گئی ہیں"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے اصل عمل (قبروں کی زیارت) میں عورتیں مردوں کے برابر ہیں، ویسے ہی اس عمل کے نتائج اور احکام میں بھی وہ مردوں کی طرح ہی ہیں۔
خلاصہ
اس بنا پر: قبرستان کے پاس سے گزرنے والے کے لیے سنت ہے کہ یہ کہے: "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ"، اور ان کے لیے رحمت اور مغفرت وغیرہ کی دعا کرے۔ اسی طرح اس کے لیے سورۃ الفاتحہ یا "قُلْ هُوَ اللهُ أَحَد" پڑھنا اور اس کا ثواب قبر والوں کو پہنچانا بھی جائز ہے، کیونکہ اس معاملے میں وسعت ہے۔ اس حکم میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.