القدر الواجب مسحه من الرأس في الوضو...

Egypt's Dar Al-Ifta

القدر الواجب مسحه من الرأس في الوضوء

Question


وضو میں سر کا کتنا حصہ مسح کرنا واجب ہے؟ میں نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا، اس نے سر کا صرف تھوڑا سا حصہ مسح کیا، اور میرے خیال میں یہ کافی نہیں ہے، لیکن مجھے اس مسئلے میں پوری معلومات نہیں ہیں۔ تو آپ سے گزارش ہے کہ وضو میں سر کے مسح کی واجب مقدار واضح فرمائیں۔

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ وضو میں سر کے مسح کی جو مقدار واجب ہے، وہ اتنی ہے جو "مسح" کہلانے کے دائرے میں آ جائے، اور یہ واجب مسح اس طرح متحقق ہو جاتا ہے کہ ہاتھ کا کچھ حصہ سر کے کچھ حصے پر پھیر دیا جائے، چاہے ایک انگلی کے پورے سے تین بالوں، ایک بال یا کسی بال کے کچھ حصے پر مسح کر لیا جائے، بشرطیکہ مسح کیا گیا حصہ اصل سر کے دائرے میں ہو، نہ کہ ان بالوں پر ہو جو سر سے نیچے لٹک رہے ہوں یا سر سے باہر ہوں۔ تاہم مستحب یہی ہے کہ وضو کرنے والا اپنے پورے سر کا مسح کرے، تاکہ ان علما کے قول سے بچ جائے جنہوں نے پورے سر کے مسح کو واجب قرار دیا ہے۔

تفصیلات...

نماز کی صحت کے لیے طہارت شرط ہے

شریعت میں یہ بات مسلم ہے کہ طہارت نماز کی صحت کے لیے شرط ہے؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ﴾ ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھو لو، اور اپنے سروں کا مسح کرو، اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک دھو لو۔ (سورۃ المائدہ: 6) اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کی نماز کو قبول نہیں کرتا جب تک وہ حدث (ناپاکی) کی حالت میں ہو، یہاں تک کہ وضو کر لے" (بخاری ومسلم)۔

امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم (جلد 3، صفحہ 103، مطبعہ ازہر مصر) میں فرمایا: امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ بغیر طہارت (چاہے پانی سے ہو یا تیمم سے) نماز پڑھنا حرام ہے، اور اس حکم میں فرض نماز اور نفل نماز میں کوئی فرق نہیں ہے"۔

وضو میں سر کے مسح کا حکم

فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ وضو میں سر کا مسح کرنا اجمالاً فرض ہے۔

امام ابن عبد البرؒ نے التمهيد (جلد 4، صفحہ 31، مطبوعہ: وزارتِ اوقاف، مراکش) میں فرمایا: علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ چہرہ دھونا، کہنیوں تک ہاتھ دھونا، ٹخنوں تک پاؤں دھونا، اور سر کا مسح کرنا فرض ہے"۔

سر کے مسح کی واجب مقدار کے متعلق فقہاء کی آراء

فقہاء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ وضو میں سر کا کتنا حصہ مسح کرنا واجب ہے۔ حنفیہ نے اپنے معتمد مذہب میں یہ رائے اختیار کی ہے کہ سر کے چوتھائی حصے کا مسح واجب ہے۔

علامہ ابن عابدین شامی حنفیؒ نے اپنی مشہور حاشیہ رد المحتار (جلد 1، صفحہ 99، مطبوعہ دار الفكر) میں فرمایا: (قولہ: ومسح ربع الرأس)... جان لو کہ فرض مسح کی مقدار کے بارے میں مختلف روایات ہیں، جن میں سب سے مشہور وہی ہے جو متونِ فقہ میں مذکور ہے... خلاصہ یہ کہ معتمد روایت چوتھائی سر والی ہے، اور متاخرین فقہاء نے بھی اسی پر عمل کیا ہے"۔

جبکہ مالکیہ کا (مشہور قول کے مطابق)، حنابلہ (صحیح روایت پر)، اور شافعیہ میں امام مزنیؒ کا یہ موقف ہے کہ پورے سر کا مسح کرنا واجب ہے۔

علامہ حطاب مالکی رحمہ اللہ نے مواهب الجليل (جلد 1، صفحہ 202، مطبوعہ دار الفكر) میں فرمایا: وضو کے ان فرائض میں سے تیسرا فرض، جس پر اجماع ہے، سر کا مسح ہے، اور مشہور مذہب یہ ہے کہ پورے سر کا مسح واجب ہے، چنانچہ اگر کچھ حصہ چھوڑ دیا جائے تو یہ مسح کافی نہیں ہوگا۔"

علامہ مرداوی حنبلی رحمہ اللہ نے الإنصاف (جلد 1، صفحہ 161، مطبوعہ دار إحياء التراث العربي) میں فرمایا: (قولہ: ويجب مسح جميعه) یعنی پورے سر کا مسح واجب ہے—یہی بلا شک و شبہ مذہب ہے، اور اسی پر اکثر اصحاب، خواہ وہ متقدمین ہوں یا متاخرین، قائم ہیں"۔ اس مسئلے کے حوالے سے امام ماوردی شافعیؒ کی کتاب الحاوي الكبير (جلد 1، صفحہ 114، مطبوعہ دار الكتب العلمية) بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

شافعیہ کا موقف یہ ہے کہ وضو میں سر کے اس قدر حصے کا مسح واجب ہے جو "مسح" کہلانے کے لائق ہو، یعنی ہاتھ کے کچھ حصے کو سر پر پھیرنا، چاہے انگلی کے ایک پور سے پیشانی کے اگلے حصے پر تین بال، ایک بال یا کسی ایک بال کے جزو پر ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن شرط یہ ہے کہ یہ مسح اصل سر کے دائرے میں ہو؛ ان بالوں پر مسح کرنا کافی نہیں جو سر سے نیچے لٹک کر سر کے دائرے سے باہر ہو چکے ہوں۔

علامہ خطیب شربینی شافعی رحمہ اللہ نے مغني المحتاج (جلد 1، صفحہ 176، مطبوعہ دار الكتب العلمية) میں فرمایا: وضو کے فرائض میں سے چوتھا یہ ہے کہ سر کی جلد یا اس کے بالوں کے اتنے حصے پر مسح کیا جائے جسے مسح کہنا درست ہو، چاہے وہ ایک بال یا اس کا کچھ حصہ ہی کیوں نہ ہو، بشرطیکہ وہ بال سر کی حدود میں ہوں، یعنی اس کے نیچے لٹکنے کی وجہ سے سر کے دائرے سے باہر نہ چلے گئے ہوں۔ اگر بالوں کو کھینچنے سے وہ سر سے باہر چلے جائیں تو ان پر مسح کافی نہیں،  اگر وہ بال گھنگھریالے ہوں اور کھینچنے پر سر سے باہر ہو جائیں، تو ان پر مسح کرنا درست نہ ہوگا۔"

فقہاء کے درمیان سر کے واجب مسح کی مقدار میں اختلاف کی بنیاد

فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف کی بنیاد قرآنِ کریم کی آیت ﴿بِرُءُوسِكُمۡ﴾ کی تفسیر میں اختلاف ہے؛ چنانچہ احناف کے قول کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿وَٱمۡسَحُواْ بِرُءُوسِكُمۡ﴾ \[المائدة: 6] سر کے مسح کے معاملے میں مجمل ہے، کیونکہ "مسح" کا لفظ تمام سر کے مسح کا احتمال بھی رکھتا ہے، اس مقدار کا بھی جو "مسح" کے نام پر صادق آتی ہے، اور کسی جزو کا بھی احتمال رکھتا ہے؛ لہٰذا جب آیت میں اجمال پایا گیا تو اس کی وضاحت ناگزیر ہوئی۔ اور چونکہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے وضو میں صرف اپنے سر کے اگلے حصے کا مسح فرمایا، جیسا کہ صحیح مسلم میں روایت ہے، تو یہ آیتِ کریمہ کے لیے اس بات کی وضاحت بن گئی کہ سر کے مسح سے مراد ناصیہ کی مقدار پر مسح کرنا ہے۔ جہاں تک "چوتھائی سر" کی تحدید کا تعلق ہے تو اس کی بنیاد یہ ہے کہ بہت سے احکامِ شرعیہ میں ''چوتھائی'' مقدار معتبر مانی گئی ہے، جیسے: احرام کی حالت میں چوتھائی سر منڈوانے سے احرام ختم ہو جاتا ہے، اس سے کم پر نہیں؛ اسی طرح اگر محرم چوتھائی سر منڈوائے تو دم واجب ہوتا ہے، ورنہ نہیں؛ اور نماز میں ستر (شرمگاہ) کا چوتھائی حصہ اگر کھل جائے تو نماز فاسد ہو جاتی ہے، اس سے کم پر نہیں۔ پس اسی اصول کو یہاں بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔

مالکیہ اور حنابلہ کے موقف کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیتِ کریمہ میں "رأس" (سر) کا ذکر فرمایا ہے، اور "سر" ایک ایسا لفظ ہے جو پورے عضو پر دلالت کرتا ہے، لہٰذا اس سے پورے سر کے مسح کا وجوب لازم آتا ہے۔ نیز آیت میں استعمال شدہ "باء" حرفِ جار (بِرُءُوسِكُم) إلصاق کیلئے ہے، یعنی اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ فعل (مسح) کو مفعول (سر) کے ساتھ مکمل طور پر لگایا جائے، پس جب "رأس" سے پورا سر مراد ہوتا ہے تو مسح بھی پورے سر پر لازم ہونا چاہیے۔ یوں گویا آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ: "اپنے سروں کا مسح کرو" یعنی پورے سروں کا، جیسا کہ تیمم کے بارے میں فرمایا: ﴿فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ﴾ [النساء: 43]، اور وہاں اور شافعیہ کے قول کی بنیاد یہ ہے کہ قرآن میں جو حکم دیا گیا ہے وہ "سر کے مسح" سے متعلق ہے، اور عرف  میں کسی چیز پر مسح کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اسے مکمل طور پر پونچھا جائے۔ جیسے کہا جاتا ہے: "میں نے رومال سے ہاتھ پونچھے"، اگرچہ پورے رومال سے نہ پونچھے گئے ہوں، اور کہا جاتا ہے: "میں نے قلم سے لکھا"، "میں نے تلوار سے مارا" — اگرچہ قلم یا تلوار کا صرف کچھ حصہ استعمال ہوا ہو — تو اس طرح کے جملوں میں کم از کم وہ مقدار مراد ہوتی ہے جس پر اس چیز کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ کیونکہ "مسح" کا اطلاق تھوڑی مقدار پر بھی ہوتا ہے اور زیادہ پر بھی۔ نیز صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صرف اپنے سر کے اگلے حصے کا مسح فرمایا، تو یہ اس بات کی نفی کرتا ہے کہ پورے سر کا مسح واجب ہو، اور یہ بھی نفی کرتا ہے کہ مسح کسی متعین مقدار پر موقوف ہو؛ لہٰذا لازم ٹھہرا کہ واجب صرف وہی مسح ہے جس پر "مسح" کا اطلاق ہو سکے۔ تفصیل کے لیے درج ذیل کتب کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔ بدائع الصنائع از امام کاسانی حنفی، کفایة الطالب الربانی مع حاشیہ عدوی مالکی، المجموع از امام نووی شافعی، اور المغنی از امام ابن قدامہ حنبلی۔

اس مسئلے میں فتویٰ کے لیے مختار قول

اس مسئلے میں ہم فتویٰ کے لیے شافعیہ کے قول کو اختیار کرتے ہیں، کیونکہ اس میں لوگوں کے لیے آسانی ہے، اور یہ وضو میں وہ کم از کم مقدار ہے جو شرعاً کافی ہے، اس سے کم کی کوئی گنجائش نہیں۔ تاہم اس کے ساتھ یہ بھی مستحب ہے کہ وضو کرنے والا پورے سر کا مسح کرے، یعنی دونوں ہاتھوں سے سر کے اگلے حصے سے پچھلے حصے (گدی) تک مسح کرے، پھر واپس اگلے تک لے آئے؛ جیسا کہ علامہ ابن عابدین حنفیؒ کی حاشیہ رد المحتار (جلد 1، صفحہ 120-121، مطبوعہ دار الفكر) اور خطیب شربینی شافعیؒ کی مغني المحتاج (جلد 1، صفحہ 189، مطبوعہ دار الكتب العلمية) میں مذکور ہے۔ نیز یہ مکمل مسح کرنا ان فقہاء کے قول سے بچنے کے لیے بھی مفید ہے جنہوں نے پورے سر کے مسح کو واجب قرار دیا ہے، اور اختلاف سے بچنا مستحب ہے ۔ الأشباه والنظائر از امام سیوطی (صفحہ 207، مطبوعہ دار الكتب العلمية)۔

خلاصہ

اس بنا پر وضو میں سر کے مسح کی جو مقدار واجب ہے، وہ اتنی ہے جو "مسح" کہلانے کے دائرے میں آ جائے، اور یہ واجب مسح اس طرح متحقق ہو جاتا ہے کہ ہاتھ کا کچھ حصہ سر کے کچھ حصے پر پھیر دیا جائے، چاہے ایک انگلی کے پورے سے تین بالوں، ایک بال یا کسی بال کے کچھ حصے پر مسح کر لیا جائے، بشرطیکہ مسح کیا گیا حصہ اصل سر کے دائرے کے اندر ہو، نہ کہ ان بالوں پر ہو جو سر سے نیچے لٹک ہوۓ ہوں یا سر سے باہر ہوں۔ تاہم مستحب یہ ہے کہ وضو کرنے والا پورے سر کا مسح کرے، تاکہ ان فقہاء کے اختلاف سے بچ جائے جنہوں نے پورے سر کے مسح کو واجب قرار دیا ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas