مخصوص مقامات سے مستعملہ کتابیں سستے داموں خریدنے کا حکم
Question
میرے بچوں کو ہر سال پڑھائی کے لیے اضافی کتابوں کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ان کی قیمت میرے لیے مناسب نہیں ہوتی۔ البتہ "سور الأزبیكة" میں دکاندار پچھلے سال استعمال شدہ کتابیں کم قیمت پر فراہم کرتے ہیں۔ تو کیا میرے لیے ان کتابوں کو خریدنا اور ان سے فائدہ اٹھانا جائز ہے؟
Answer
: الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ یہ استعمال شدہ کتابیں کم قیمت پر خریدنا شرعاً جائز ہے، بشرطیکہ ان کی ملکیت فروخت کرنے والے کو کسی درست اور شرعی طور پر معتبر طریقے سے منتقل ہوئی ہو، اور بیع کے شرائط و ارکان موجود ہوں، نیز ملکی قانون میں بھی ان کے خرید و فروخت سے منع کرنے والی کوئی صراحت موجود نہ ہو۔
تفصیلات....
بیع کی مشروعیت کا بیان
اللہ تعالیٰ نے بیع کو مشروع قرار دیا اور اسے جائز ٹھہرایا، بشرطیکہ وہ باہمی رضامندی سے ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ "اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔" (البقرہ: 275) اور فرمایا: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ﴾ "اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق مت کھاؤ، مگر یہ کہ وہ تمہاری باہمی رضا مندی سے تجارت کے طور پر ہو۔" (النساء: 29)۔ اور امام حاکم نے "المستدرک" میں ابو بردہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا: سب سے پاکیزہ یا افضل کمائی کون سی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: " آدمی کا خود اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔"
مبیع بیچنے والے کی ملکیت ہونا عقدِ بیع کے صحیح ہونے کے لیے شرط ہے
بیع کے صحیح ہونے کیلئے شرط ہے کہ مبیع (بیچی جانے والی چیز) بیچنے والے کی ملکیت ہو۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جو امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک شخص مجھ سے کوئی چیز خریدنے کا مطالبہ کر رہا ہے جبکہ وہ میرے پاس موجود نہیں ہے، کیا میں اسے بیچ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جو چیز تمہارے پاس نہیں، اسے مت بیچا کرو۔"
یہی بات فقہاء اربعہ یعنی حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے درمیان متفق علیہ ہے۔ علامہ کاسانی حنفی "بدائع الصنائع" (5/146-147، دار الکتب العلمیة) میں فرماتے ہیں: "[ان شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ بیع کے وقت مبیع(بیچی جانے والی چیز) بیچنے والے کے کی ملکیت میں ہو، ورنہ بیع منعقد نہیں ہوگی۔]"
علامہ مواق مالکی "التاج والإكليل" (6/71، دار الکتب العلمیة) میں فرماتے ہیں: "(اور اس پر قدرت ہونا ضروری ہے) ابن عرفہ نے کہا: جس چیز پر عقد کیا جائے اس میں یہ شرط ہے کہ وہ بیچنے والے یا اس کے نائب کی ملکیت میں ہو اور اس کے سپرد کرنے پر قادر ہو۔"
علامہ خطیب شربینی شافعی "مغنی المحتاج" (2/349، دار الکتب العلمیة) میں لکھتے ہیں: "مبیع کے شرائط میں سے چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ بیچنے والے کی ملکیت میں ہو جس کے نام پر عقد کیا جا رہا ہے۔"
علامہ ابو السعادات بہوتی حنبلی "کشاف القناع" (3/180، دار الکتب العلمیة) میں شرائطِ مبیع کے بیان میں فرماتے ہیں: "چوتھی شرط یہ ہے کہ مبیع وقتِ عقد بیچنے والے کی ملکیت میں ہو، اسی طرح قیمت بھی مکمل طور پر ملکیت میں ہو۔"
مستعمل اضافی کتابیں سستے داموں خریدنے کا حکم
کتابیں دراصل مؤلف کی ملکیت ہوتی ہیں اور یہ حق قانون نے اسے دیا ہے، لہٰذا ملکیت منتقل کرنے والے تمام تصرفات کا اختیار بھی مؤلف یا اس کے مجاز نمائندے کو حاصل ہے۔ اور جمہور فقہاء میں سے شافعیہ، مالکیہ کے ایک قول اور حنابلہ کی ایک روایت کے مطابق ان کتابوں کی بیع جائز ہے۔
شیخ علیش مالکی نے "منح الجلیل" (7/487، دار الفكر) میں فقہ کی تعلیم پر اجرت لینے اور اس کی کتابوں کی بیع کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے امام مالک کا قول نقل کیا ہے جس میں کراہت کا ذکر ہے، پھر ابن یونس کے حوالے سے فرمایا: "دوسرے علماء نے فقہ کی کتابوں کی بیع کو جائز قرار دیا ہے، لہٰذا اس کی تعلیم پر اجرت لینا بھی اسی پر قیاس کرتے ہوئے جائز ہے، اور یہی درست ہے۔" ابن عبد الحکم نے کہا: "ابن وہب کی کتابیں تین سو دینار میں فروخت ہوئیں جبکہ ہمارے اصحاب بڑی تعداد میں موجود تھے، مگر انہوں نے اس پر نکیر نہیں کی، اور میرے والد اس کے وصی (نگران اور دیکھ بھال کرنے والے) تھے۔"
علامہ شيرازی شافعی نے "المهذب" (2/12، دار الکتب العلمیة) میں لکھا ہے: "مصاحف اور ادب کی کتابوں کی بیع جائز ہے، کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان سے مصاحف کی بیع کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں، وہ اپنے ہاتھوں کی محنت کی اجرت لیتے ہیں۔ اور اس لیے بھی کہ یہ پاک چیز ہے جس سے نفع حاصل ہوتا ہے، لہٰذا یہ دوسرے اموال کی طرح ہے۔"
علامہ ابو السعادات بہوتی حنبلی نے "کشاف القناع" (3/178) میں فرمایا ہے: "علمی کتابوں کی بیع جائز ہے۔"
اسی بنیاد پر اور اسی اصول کی روشنی میں یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ استعمال شدہ کتابوں کی بیع جائز ہے، بشرطیکہ وہ کسی شخص کی ملکیت میں کسی صحیح اور شرعی طور پر معتبر طریقے سے آ گئی ہوں، بیع کے تمام شرائط و ارکان موجود ہوں، کوئی قانونی رکاوٹ نہ ہو، اور اس میں فکری ملکیت کے حقوق کی خلاف ورزی بھی نہ ہو کہ مصنفین نے اس طرح کے تصرفات سے روک رکھا ہو۔
یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ کتابوں کو بغیر مصنف یا اس کے ناشر و موزع کے اجازت کے نقل (فوٹو کاپی) کرکے فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں، کیونکہ اس میں فکری ملکیت اور دوسروں کے حقوق پر دست درازی ہے جن کی حفاظت شریعتِ مطہرہ اور عدالتی قوانین دونوں نے کی ہے۔ اور اگر خریدار کو اس بات کا علم ہو تو ایسی کتابیں خریدنا بھی حرام ہے، کیونکہ یہ گناہ کے کام میں تعاون کے زمرے میں آتا ہے جس سے شرعاً منع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ "اور نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو، اور گناہ اور زیادتی میں تعاون نہ کرو۔" (المائدہ: 2)۔
خلاصہ
مندرجہ بالا تفصیل اور سوال میں بیان کردہ صورتِ حال کی بنیاد پر یہ حکم ہے کہ استعمال شدہ کتابیں کم قیمت پر خریدنا شرعاً جائز ہے، بشرطیکہ ان کی ملکیت بیچنے والے کو کسی صحیح اور شرعی طور پر معتبر طریقے سے منتقل ہوئی ہو، بیع کے تمام شرائط وارکان موجود ہوں، نیز ملکی قانون میں بھی ان کے خرید وفروخت سے منع کرنے والی کوئی صراحت موجود نہ ہو۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.