عوامی مقامات پر اذکار کے پرچوں کو چسپاں کرنے کا حکم
Question
عوامی مقامات پر اذکار کے پرچے چسپاں کرنے کا کیا حکم ہے؟ بعض دوستوں نے مجھ سے یہ تجویز دی کہ اذکار کے اسٹیکرز پرنٹ کروا کر انہیں کچھ ایسے عوامی مقامات پر لگایا جائے جہاں لوگوں کی کثرت ہوتی ہے تاکہ انہیں اللہ عز وجل کے ذکر کی یاد دہانی کرائی جا سکے۔ لیکن ایک شخص نے اس پر اعتراض کیا کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے نام کی توہین اور بے ادبی کا پہلو ہے۔
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ عوامی مقامات پر اذکار کے اسٹیکرز لگانا جائز ہے، بشرطیکہ اگر اسٹیکرز پر موجود اللہ تعالیٰ کے اسماءِ گرامی کا پورا ادب و احترام ملحوظ رکھا جائے، متعلقہ انتظامیہ سے اجازت حاصل کی جائے، اور عوامی مقامات کے قوانین و ضوابط کی پاسداری کی جائے۔ لیکن اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو ان کا لگانا جائز نہیں ہوگا۔
ان میں سے کسی ایک شرط کی بھی خلاف ورزی کا یہ جواز نہیں دیا جا سکتا کہ اذکار کے یہ پرچے دراصل دعوت الی اللہ کا ذریعہ ہیں اور لوگوں کو ذکر کی یاد دہانی کراتے ہیں؛ اس لئے کہ دعوت کا دائرہ صرف اسی ایک طریقے تک محدود نہیں، بلکہ اس کے لیے اور بھی بہت سے ذرائع موجود ہیں جن میں نہ تو اذکار کی بے ادبی کا خدشہ ہے، نہ کسی ادارے کے اختیارات میں مداخلت ہے، اور نہ ہی قوانین و ضوابط کی خلاف ورزی۔
تفصیلات:
عبادتِ ذکر کے فضائل کا بیان
شرعاً یہ بات مسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ایک عظیم عبادت ہے، جس کا مرتبہ بلند، اجر عظیم اور نفع بے شمار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ذکر کرنے والے مرد و عورت کی تعریف کی ہے اور مومنین و مومنات کو کثرت سے ذکر کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا﴾ ترجمہ: "اور جو مرد کثرت سے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور جو عورتیں اللہ کو یاد کرتی ہیں، اللہ نے ان کے لیے بخشش اور بڑا اجر تیار کر رکھا ہے" (الأحزاب: 35) اور ایک اور جگہ فرمایا: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا﴾ ترجمہ: : "اے ایمان والو! اللہ کو کثرت سے یاد کرو، اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرو" (الأحزاب: 41-42)۔
سنتِ نبویہ میں بھی ذکرِ الٰہی کے فضائل بکثرت بیان ہوئے ہیں۔ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''کیا میں تمہیں ایسے عمل کی خبر نہ دوں جو تمہارے اعمال میں سب سے بہتر ہے، تمہارے رب کے نزدیک سب سے زیادہ پاکیزہ ہے، تمہارے درجوں کو بلند کرنے والا ہے، تمہارے لیے سونے اور چاندی خرچ کرنے سے بھی بہتر ہے، اور اس سے بھی بہتر ہے کہ تم اپنے دشمن سے ملو تو تم ان کی گردنیں مارو اور وہ تمہاری گردنیں ماریں (یعنی جہاد سے بھی)؟”
صحابہ نے عرض کیا: کیوں نہیں یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ذکر۔ (ترمذی)
اللہ تعالی کے نامِ مبارک پر مشتمل تحریروں کی تعظيم و احترام کے وجوب کا بیان
اذکار کبھی زبانی پڑھے جاتے ہیں اور کبھی تحریری شکل میں، اور یہ تحریر کبھی دیواروں پر آویزاں ہوتی ہے، کبھی کاغذوں میں ساتھ رکھی جاتی ہے، کبھی کتابوں میں درج ہوتی ہے، اور کبھی جدید ڈیجیٹل ذرائع میں موجود ہوتی ہے۔
شریعت نے اُن تمام تحریروں کی تعظیم کو ضروری قرار دیا ہے جن میں قرآنِ کریم کی آیات، احادیثِ رسول ﷺ، یا اللہ تعالیٰ اور انبیاءِ کرام علیہم السلام کے مبارک نام لکھے ہوں، اور ان کے احترام و حفاظت کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ "الفتاوى الفقهية الكبرى" (2/6، ط: المكتبة الإسلامية) میں فرماتے ہیں: قرآن مجید کا اور اللہ تعالی کے اسماءِ مقدسہ اور انبیاءِ کرام کے اسمائے مبارکہ کا ادب اور تعظيم وتوقیر واجب ہے۔
شیخ قلیوبی رحمہ اللہ نے حاشیة القليوبي على شرح المحلي على المنهاج (4/177، ط: دار الفكر) میں فرمایا: مصحف سے مراد وہ شیئ ہے جس میں قرآن ہو، اور اسی طرح اس کے حکم میں حدیث، ہر دینی علم، یا وہ چیز بھی داخل ہے جس پر کوئی معظّم نام لکھا ہو۔"
ان چیزوں کا احترام اور توقیر درحقیقت اللہ تعالیٰ کی شعائر کی تعظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ عِنْدَ رَبِّهِ﴾ ترجمہ: یہ (ہمارا حکم ہے) اور جو شخص اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کے لیے اس کے رب کے ہاں بہتر ہے۔'' (الحج: 30) اور فرمایا: ﴿ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ﴾ ترجمہ: یہ اور جو اللہ کے نام کی چیزوں کی تعظیم کرتا ہے تو یقینا یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔'' (الحج: 32)۔
امام آلوسی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر روح المعاني (9/141، ط: دار الكتب العلمية) میں لکھا: ﴿وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ﴾ میں ’حُرُمات‘ حرمة کی جمع ہے، اور اس سے مراد وہ سب کچھ ہے جس کا شریعت میں احترام لازم ہے۔"
اللہ کے نام پر مشتمل تحریروں کی تعظیم واحترام کے مظاہر
علماء کی کتب میں اس بات کا خوب لحاظ رکھا گیا ہے کہ ان نصوص کے ساتھ ادب واحترام کا معاملہ ہو۔ فقہاء نے بلا ضرورت قرآنِ مجید یا دینی علوم کی کتابوں کو زمین پر رکھنے کو مکروہ قرار دیا ہے، اسی طرح ان کی طرف پاؤں پھیلانے کو بھی ناپسند کیا ہے، الا یہ کہ وہ ایسی جگہ بلند ہوں جہاں پاؤں کا سامنا نہ ہو۔ انہوں نے ان کے اوپر کوئی چیز رکھنے کو بھی مکروہ کہا ہے، خواہ کتابیں ہوں یا کپڑے یا کوئی اور چیز، چہ جائیکہ ان پر بیٹھا جائے۔ یہ سب اس لیے ہے تاکہ ان میں درج اللہ تعالیٰ کے ذکر کی اور علومِ شریعت کی تعظیم وتوقیر باقی رہے۔ اس کی وضاحت فتح القدير از کمال ابن الہمام الحنفی (1/420، ط: دار الفكر)، الفتاوى الحديثية از علامہ ابن حجر الهيتمي الشافعی (ص 164، ط: دار الفكر)، اور شرح منتهى الإرادات از علامہ بہوتی (1/78، ط: عالم الكتب) میں ملتی ہے۔
اسی طرح فقہاء نے اس بات کو بھی مکروہ قرار دیا ہے کہ کسی چیز کو اس کاغذ میں لپیٹا جائے جس پر اللہ تعالیٰ کا نام، یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام، یا کوئی دینی علم، یا دیگر ادب واحترام والی تحریریں لکھی ہوئی ہوں۔ اس کی وضاحت بريقة محمودية از ابو سعيد الخادمي (4/81، ط: الحلبي) اور نهاية المحتاج از علامہ شمس الدين الرملي (1/126، ط: دار الفكر) میں موجود ہے۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ راستے میں اگر کوئی کاغذ ملے جس پر اللہ تعالیٰ کا اسم گرامی یا کسی نبی علیہم السلام کا نام پاک درج ہو، تو اس کو اٹھا کر عزت و تکریم دینا اور محفوظ کرنا بہت بڑے اجر کا باعث ہے۔ جیسا کہ المدخل از ابن الحاج المالكي (1/42، ط: دار التراث) میں بیان ہوا ہے۔
عوامی مقامات پر اذکار کے پرچے چسپاں کرنے کا حکم
عوامی مقامات جیسے باغیچے، کلب، راستے، گزرگاہیں، تجارتی مراکز، ہوٹل، ریستوران، میوزیم، طبی و تعلیمی ادارے، مختلف ذرائع آمد و رفت، بازار اور اس جیسی دوسری جگہوں پر اذکار کے پرچے چسپاں کرنے میں درج ذیل امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
اول: ضروری ہے کہ ہر وہ چیز جس پر اللہ تعالیٰ کا نام لکھا ہوا ہو، چاہے وہ قرآنِ مجید ہو، کوئی کتاب، ورقہ یا کوئی اور چیز، اسے مناسب طریقے سے محفوظ رکھا جائے۔ کیونکہ اگر آیات یا اذکار کو دیواروں پر چسپاں کیا جائے تو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ گر جائیں، پھٹ جائیں، گندگی یا گرد و غبار کا شکار ہو جائیں، یا ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں پڑ جائیں جو ان کی قدر و منزلت نہیں جانتے۔ اس طرح یہ چیزیں بے ادبی اور اہانت کا شکار ہو سکتی ہیں، خواہ یہ سب کچھ غیر ارادی طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ اسی وجہ سے فقہاء نے قرآن یا ذکر کو ایسے مقامات پر لکھنے کو مکروہ قرار دیا ہے جہاں اس کے بے حرمتی کا امکان ہو، بلکہ بعض صورتوں میں اسے حرام بھی کہا ہے۔اس کی وضاحت اس روایت سے ہوتی ہے جسے ابو عبید القاسم بن سلام نے فضائل القرآن (ص 121، ط: دار ابن كثير)، ابن بطة نے الإبانة (5/325، ط: دار الراية)، اور مستغفری نے فضائل القرآن (1/200) میں نقل کیا ہے کہ عمر بن عبدالعزيز رحمہ اللہ نے فرمایا: "قرآن وہاں مت لکھو جہاں اس پر پاؤں پڑے"۔ امام مستغفری نے اس پر یہ باب قائم کیا: "باب: قرآن کو زمین پر یا کسی ایسی چیز پر لکھنے کی ممانعت جس پر پاؤں رکھا جائے، تاکہ قرآن کی تعظیم باقی رہے"
علامہ شیخ ضباع رحمہ اللہ نے اپنی رسالہ فتح الكريم المنان في آداب حملة القرآن میں فرمایا: قرآن کو زمین پر یا ایسے بستر اور کپڑے پر لکھنا جائز نہیں جن پر پاؤں رکھا جاتا ہو۔"
مزید ملاحظہ ہو: "فتح القدیر" امام کمال الدین ابن ہمام (1/169، دار الفكر)، "البحر الرائق" امام زین الدین ابن نجیم (2/40، دار الكتاب الإسلامي)، "الشرح الكبير" امام ابو البرکات الدردير (1/425، دار الفكر) — جس میں اس بات کی وضاحت ہے کہ ایسی ہر جگہ پر لکھنا مکروہ ہے جہاں اس کے پاؤں تلے آنے یا بے حرمتی کا اندیشہ ہو —، "المجموع" امام نووی شافعی (2/70، دار الفكر)، اور "الفروع" امام ابن مفلح (6/317، مؤسسة الرسالة) — جس میں سکّوں پر لکھنے کو مکروہ قرار دیا ہے کیونکہ وہ بکھر کر بے ادبی کا باعث بن سکتے ہیں۔
پس جب یہ مفاسد اور اہانت کے اسباب نہ پائے جائیں تو کراہت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اسی بنیاد پر قرآن کی آیات کو قبر پر لکھنا شافعیہ کے معتمد قول کے مطابق حرام نہیں ہے، کیونکہ وہاں اہانت کے اسباب سے بچاؤ ممکن ہے۔
علامہ شمس الرملي شافعی رحمہ اللہ نے نهاية المحتاج (3/34) میں فرمایا: اذرعی نے یہ کہا ہے کہ قبر پر قرآن لکھنے کا قیاس یہ ہے کہ یہ حرام ہو، کیونکہ اس پر پاؤں رکھنے، نجاست لگنے اور بار بار کھودنے کی وجہ سے میت کے رطوبت سے آلودہ ہونے کا امکان ہے۔ مگر یہ بات مطلق طور پر فقہاء کے کلام کے خلاف ہے، بالخصوص جبکہ یہ مفاسد یقینی نہیں ہیں۔"
اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اس آیتِ کریمہ کے بارے میں، جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کا قول ذکر فرمایا: ﴿فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا﴾ [مریم: 11]، انہوں نے فرمایا: "آپ علیہ الصلاۃ والسلام نےان کیلئے زمین پر لکھ دیا کہ صبح و شام تسبیح کرو۔" امام آلوسی نے اسے اپنی تفسیر روح المعاني (8/391) میں نقل کیا ہے، پھر فرمایا: "یہی روایت مجاہد سے بھی منقول ہے، لیکن اس میں 'زمین پر' کے بجائے 'مٹی پر' کے الفاظ ہیں۔"
دوسرا: ایسے مقامات پر اسٹیکرز لگانے کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ حکام یا اداروں کو اعتماد میں لیا جائے اور ان سے اجازت حاصل کی جائے، ورنہ یہ ان کے دائرۂ اختیار میں ناحق مداخلت کے مترادف ہوگا۔
تیسرا: ان عوامی مقامات کے لیے جو قوانین اور ضابطے مقرر ہیں، ان کی پابندی بھی ضروری ہے، کیونکہ یہ ضابطے ان جگہوں کے ظاہری حسن و جمال کو برقرار رکھنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ان کی خلاف ورزی نہ صرف نظام عامہ کے منافی ہے بلکہ ان دیواروں اور عمارتوں کے حسن کو بھی بگاڑ سکتی ہے۔
جب یہ تمام شرائط پوری ہو جائیں اور مذکورہ خدشات باقی نہ رہیں تو عوامی مقامات پر اذکار والے اسٹیکرز آویزاں کرنا جائز ہے، تاکہ لوگوں کو خیر وبھلائی کی طرف رہنمائی ملے۔
ان میں سے کسی ایک شرط کی بھی خلاف ورزی کا یہ جواز نہیں دیا جا سکتا کہ اذکار کے یہ پرچے دراصل دعوت الی اللہ کا ذریعہ ہیں اور لوگوں کو ذکر کی یاد دہانی کراتے ہیں؛ اس لئے کہ دعوت کا دائرہ صرف اسی ایک طریقے تک محدود نہیں، بلکہ اس کے لیے اور بھی بہت سے ذرائع موجود ہیں جن میں نہ تو اذکار کی بے ادبی کا خدشہ ہے، نہ کسی ادارے کے اختیارات میں مداخلت ہے، اور نہ ہی قوانین و ضوابط کی خلاف ورزی۔
خلاصہ
اس بنا پر: عوامی مقامات پر اذکار کے اسٹیکرز لگانا جائز ہے، بشرطیکہ اگر اسٹیکرز پر موجود اللہ تعالیٰ کے اسماءِ گرامی کا پورا ادب واحترام ملحوظ رکھا جائے، متعلقہ انتظامیہ سے اجازت حاصل کی جائے، اور عوامی مقامات کے قوانین وضوابط کی پاسداری کی جائے۔ لیکن اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو ان کا لگانا جائز نہیں ہوگا۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.