انبیاء، اولیاء، صالحین اور اہلِ بیت کے مزارات کی زیارت کا حکم
Question
سیدِنا ونبیِّنا محمد ﷺ کے روضۂ اقدس کی زیارت، نیز اولیاء، اہلِ بیت، عارفین، علما، صالحین، مشائخ اور تمام صحابہ کرام کے مزارات ومقامات کی زیارت کا شرعی حکم کیا ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ سیدِ الکونین حضرت محمد مصطفی ﷺ کے روضۂ اقدس اور مقامِ مبارک کی زیارت اللہ تعالیٰ کے قرب کا بہترین ذریعہ ہے، اور اسی طرح اہلِ بیتِ اطہار، اولیاء، عارفین، علما اور صالحین کے مزارات ومقامات کی زیارت بھی شرعاً مشروع (جائز ومستحب) ہے، اور امتِ مسلمہ کے علما کا قدیم وجدید زمانے میں اس پر ہمیشہ عمل رہا ہے۔ البتہ اس موقع پر خشوع وسکون، ذکر ودعا، تلاوتِ قرآن، اور ادب واحترام کا خاص لحاظ رکھنا ضروری ہے، اور سیدِ السادات ﷺ کے روضۂ اقدس پر اور اسی طرح اہلِ بیت وصالحین کے مبارک مزارات پر آواز بلند نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ یہ مقامات روحانیت، رحمت اور ایمان کی تازگی کے مظاہر ہیں۔ اور اسی طرح ایسے اعمال سے بھی پرہیز ضروری ہے جن کے ظاہر سے دین میں خلل، کردار پر طعن، یا عقیدے میں بگاڑ کا شبہ پیدا ہو، کیونکہ ایسے افعال ان مبارک زیارات کے روحانی سکون کو متاثر کر دیتے ہیں اور انکار وفتنہ انگیزی کا سبب بن سکتے ہیں۔
تفصیلات:
نبی کریم ﷺ کی قبرِ مبارک کی زیارت کے مشروع اور فضیلت والا عمل ہونے پر اجماع
نبی کریم ﷺ کی قبرِ مبارک اور روضۂ اقدس کی زیارت، اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین اعمال اور عظیم ترین اعمال میں سے ہے۔ امتِ مسلمہ کے تمام علما کا اس کے مشروع اور فضیلت والے عمل ہونے پر اجماع (اتفاقِ رائے) ہے، اور بہت سے علما نے اس اجماع کو نقل بھی کیا ہے۔
علما کے اقوال نبی کریم ﷺ کی قبرِ مبارک کی زیارت کے مشروع ہونے اور اس پر دلائل کے بارے میں
قاضی عیاض نے الشفا (جلد 2، صفحہ 194، دار الفيحاء) میں فرمایا: “نبی کریم ﷺ کی قبرِ مبارک کی زیارت مسلمانوں کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے، جس پر اجماع ہے، اور یہ ایک ایسی فضیلت ہے جس کی ترغیب دی گئی ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباري (جلد 3، صفحہ 66، دار المعرفة) میں فرمایا: “یہ (زیارتِ نبوی) بہترین اعمال اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے بلند ترین ذرائع میں سے ہے، اور اس کے مشروع ہونے پر بلا کسی اختلاف کے اجماع ہے۔
شیخ ابن تیمیہ الحنبلی نے مجموع الفتاوى (جلد 27، صفحہ 267، مجمع الملك فهد) میں فرمایا: نبی کریم ﷺ کی مسجد کی طرف سفر کرنا، جسے آپ ﷺ کی قبرِ مبارک کی زیارت کے لیے سفر کہا جاتا ہے، یہ ایسا عمل ہے جس پر مسلمانوں کا نسل در نسل اجماع چلا آ رہا ہے۔
انہوں نے اس پر بہت سے دلائل سے استدلال کیا ہے، ان میں سے ایک اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا﴾ ترجمہ: اور اگر وہ اس وقت جب انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا تھا، آپ کے پاس آجاتے، اور اللہ سے مغفرت مانگتے، اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے، تو وہ ضرور اللہ کو توبہ قبول کرنے والا، رحم فرمانے والا پاتے۔ (النساء: 64) یہ آیت عام ہے، جو نبی کریم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ اور وصال، دونوں زمانوں کو شامل ہے، نیز اس میں سفر کرنے یا نہ کرنے دونوں صورتیں شامل ہیں۔ اس آیت کو کسی ایک حالت کے ساتھ خاص کرنا، بغیر کسی دلیل کے تخصیص کرنا ہے، جو درست نہیں۔ اس کی عمومیت اس بات سے ثابت ہے کہ فعل شرط کے سیاق میں واقع ہوا ہے، اور اصولِ فقہ کا قاعدہ ہے کہ “جب کوئی فعل شرط کے سیاق میں آئے تو وہ عموم پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ فعل اپنے اندر مصدرِ نکرہ کا مفہوم رکھتا ہے، اور نکرہ جب نفی یا شرط کے سیاق میں واقع ہو تو وہ وضعاً عموم کے لیے ہوتا ہے۔
نبی کریم ﷺ کی زیارت اور خاص اسی قصد سے جانے کے بارے میں بہت سی احادیث ہیں، ان میں سے ایک حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے میری قبر کی زیارت کی، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی۔ اسے امام دارقطنی نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے۔ ایک روایت میں ہے: جو شخص مجھ سے کسی دنیاوی حاجت کے بغیر صرف زیارت کی نیت سے آئے، تو میرے ذمہ ہے کہ میں قیامت کے دن اس کے لیے شفاعت کروں۔ اسے امام طبرانی نے المعجم الكبير میں روایت کیا ہے۔ اور ایک روایت میں ہے: جس نے میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی، تو گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔ اسے بھی امام طبرانی نے المعجم الكبير میں روایت کیا ہے۔ یہ تمام احادیث مختلف سندوں سے مروی ہیں جو ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں، اور ان کو بہت سے محدثین نے صحیح قرار دیا ہے، جن میں امام ابن خزیمہ، ابن السکن، قاضی عیاض، تقی الدین السبکی، حافظ عراقی اور دیگر آئمہ شامل ہیں۔
اولیاء، آلِ بیت، علما اور صالحین کے مزارات و مقامات کی زیارت کا حکم
آلِ بیتِ اطہار، اولیاء، علما اور صالحین کے مزارات کی زیارت، ان کے آستانوں پر دعا کرنا، اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت ان کے وسیلے سے حاصل کرنے کے لیے جانا کتاب و سنت سے ثابت اور مشروع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا﴾ ترجمہ: "جن لوگوں کو ان کے معاملے پر غلبہ حاصل ہوا، انہوں نے کہا: ہم ان (صالحین) کے اوپر ایک مسجد بنائیں گے۔[الكهف: 21]۔ اس آیتِ کریمہ نے صالحین کی قبور پر ان کی عبادت و بندگی کی برکت حاصل کرنے کے لیے مسجد بنانے کو مشروع قرار دیا ہے، جیسا کہ بہت سے مفسرین نے اس پر تصریح فرمائی ہے۔
امام نسفی نے اپنی تفسیر (2/293، دار الکلم الطیب) میں فرمایا: ﴿لَنَتَّخِذَنَّ مَسْجِدًا﴾ یعنی مسلمان وہاں نماز پڑھیں گے اور ان (صالحین) کے مقام سے برکت حاصل کریں گے۔
اور زیارتِ قبور کی اصل مشروعیت عام نصوص سے ثابت ہے، کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے قبروں کی زیارت کی ترغیب دی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "قبروں کی زیارت کیا کرو، کیونکہ وہ تمہیں موت کی یاد دلاتی ہیں۔" (صحیح مسلم، از حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ)، ایک اور روایت میں ہے: «فَإِنَّهَا تُذَكِّرُ الْآخِرَةَ» یعنی: "قبروں کی زیارت تمہیں آخرت کی یاددلاتی ہے۔"
رسولِ اکرم ﷺ کے بعد سب سے زیادہ قابلِ زیارت مزارات اہلِ بیتِ نبوی علیہم الرضوان کے ہیں، کیونکہ ان کے مزارات جنت کے باغیچے ہیں، اور ان کی زیارت و محبت درحقیقت رسول اللہ ﷺ سے نیکی اور صلۂ رحمی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى﴾ ترجمہ:"آپ فرما دیجیے: میں تم سے اس (تبلیغِ رسالت) پر کوئی اجر نہیں مانگتا، سوائے قرابت داروں کی محبت کے" (الشورى: 23)۔
نبیِّ کریم ﷺ نے اپنی امت کو اپنے اہلِ بیت کے بارے میں خاص طور پر وصیت فرمائی۔ حضرت زید بن أرقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسولُ الله ﷺ خُمّ نامی مقام (جو مکّہ اور مدینہ کے درمیان ہے) پر خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی، نصیحت کی اور لوگوں کو اللہ تعالی کی یاد دلائی، پھر فرمایا: سنو! اے لوگو! میں ایک بشر ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہ) پیغام اجل لائے اور میں قبول کر لوں۔ میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ پہلے تو اللہ کی کتاب ہے اور اس میں ہدایت ہے اور نور ہے۔ تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو۔“ غرض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب کی طرف رغبت دلائی۔ پھر فرمایا: دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں۔صحیح مسلم۔ اور ان کی یاد ان سے محبت اور زیارت کے ذریعے تازہ رہتی ہے، خواہ وہ زندہ ہوں یا وفات پا چکے ہوں۔ اور انسان کے لیے ان کے مزارات کی زیارت اپنے رشتہ داروں کی قبور کی زیارت سے زیادہ اہم ہے، جیسا کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں سے صلہ رحمی کرنا مجھے اپنے رشتہ داروں سے تعلق رکھنے سے زیادہ محبوب ہے۔'' اور ایک موقع پر فرمایا: “رسول اللہ ﷺ کا لحاظ ان کے اہلِ بیت میں رکھو۔”ان دونوں روایتوں کو امام بخاری نے بیان کیا ہے۔ پس رشتہ داری کا تعلق موت کے بعد بھی منقطع نہیں ہوتا، بلکہ قبور کی زیارت اسی تعلق کا ایک حصہ ہے جس کی ترغیب شریعتِ مطہرہ نے دی ہے۔
اہلِ بیت اور صالحین کے مزارات بابرکت مقامات ہیں، جہاں دعا کی قبولیت کی امید ہوتی ہے۔ کیونکہ اہلِ جنت کی قبور جنت کے باغات ہیں، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قبر یا تو جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے، یا آگ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔" یہ حدیث امام ترمذی نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، امام طبرانی نے المعجم الأوسط میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، ابن ابی الدنیا نے القبور میں، اور بیہقی نے إثبات عذاب القبر میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے۔
حافظ أبو موسی المدینی نے اپنی کتاب ''اللطائف من علوم المعارف'' میں امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ: اہل سنت کے عبادت گزاروں کی قبور جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہیں۔" تو پھر نبی کریم ﷺ کے اہلِ بیت، اولیاء اللہ صالحین اور متقی عبادت گزاروں کے مزارات کتنے زیادہ بابرکت اور فضیلت والے ہوں گے۔
امتِ کے جلیل القدر علما اور ائمہ کرام سے یہ بات منقول ہے کہ صالحین اور اولیاء کی قبور کی زیارت مستحب ہے، اور یہ وہ مقامات ہیں جہاں دعا کی قبولیت کی امید کی جاتی ہے۔ چنانچہ خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد (جلد 1، صفحہ 445، دار الغرب الاسلامی) میں نقل کیا ہے کہ: حضرت ابراہیم الحربی، جو کہ آئمۂ حدیث میں سے ہیں، نے فرمایا: " معروف کرخی کا مزار آزمودہ تریاق ہے" اور محاملی، جو کہ احادیث کے ایک اور امام ہیں، سے روایت ہے کہ: "میں ستر سال سے معروف الکرخی کی قبر کو جانتا ہوں، جو بھی پریشان حال شخص وہاں گیا اللہ تعالیٰ نے اس کا غم دور کر دیا۔"
ذہبی نے سیر أعلام النبلاء (جلد 9، صفحہ 343-344، مؤسسة الرسالة) میں فرمایا: حضرت ابراہیم الحربی سے روایت ہے: معروف کرخی کا مزار آزمودہ تریاق ہے''، یعنی وہاں پریشان حال کا دعا مانگنا قبولیت کے قریب ہوتا ہے، کیونکہ بابرکت مقامات وہ ہیں جہاں دعا قبول ہوتی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ زمانے کے تمام ادوار میں مسلمانوں کے علما اور عوام کا اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ وہ انبیاءِ کرام، صالحین اور اہلِ بیتِ نبوی علیهم الرضوان کے قبور کی زیارت کرتے اور ان سے تبرک حاصل کرتے رہے ہیں، اور اس پر کسی نے نکیر نہیں کی۔
علامہ السمہودی نے وفاء الوفا بأخبار دار المصطفى (جلد 1، صفحہ 233، دار الفرقان) میں نقل کیا ہے: البرهان ابن فرحون نے امام عالم، ابو محمد عبدالسلام بن ابراہیم بن وِمصال الحاحانی سے روایت کیا کہ انہوں نے شیخ عالم ابو محمد صالح ہزمیری کی کتاب سے نقل کیا: صالح بن عبدالحلیم سے روایت ہے کہ انہوں نے ابو محمد عبدالسلام بن یزید الصنهاجی سے پوچھا: "قبروں کی مٹی، جسے لوگ تبرک کے لیے اٹھاتے ہیں، کیا جائز ہے یا ممنوع؟" ابو محمد نے فرمایا: "یہ جائز ہے، اور لوگ ہمیشہ علماء، شہداء اور صالحین کی قبور سے برکت حاصل کرتے رہے ہیں، اور لوگ قدیم زمانے سے سیدنا امیر حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے مزار کی مٹی اٹھاتے تھے۔ ابن فرحون نے اس کے بعد فرمایا: "اور آج لوگ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے مزارِ مبارک کے قریب کی مٹی لیتے ہیں اور اس سے تسبیح کے دانوں جیسے دانے بناتے ہیں۔" ابن فرحون نے اسی بات سے مدینہ منورہ کی مٹی منتقل کرنے کے جواز پر استدلال کیا۔
خلاصہ
اس بنا پر اور سوال کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ: سیدِ الکونین حضرت محمد مصطفی ﷺ کے روضۂ اقدس اور مقامِ مبارک کی زیارت اللہ تعالیٰ کے قرب کا بہترین ذریعہ ہے، اور اسی طرح اہلِ بیتِ اطہار، اولیاء، عارفین، علما اور صالحین کے مزارات و مقامات کی زیارت بھی شرعاً مشروع (جائز و مستحب) ہے، اور امتِ مسلمہ کے علما کا قدیم و جدید زمانے میں اس پر ہمیشہ عمل رہا ہے۔ البتہ اس موقع پر خشوع و سکون، ذکر و دعا، تلاوتِ قرآن، اور ادب و احترام کا خاص لحاظ رکھنا ضروری ہے، اور سیدِ السادات ﷺ کے روضۂ اقدس پر اور اسی طرح اہلِ بیت و صالحین کے مبارک مزارات پر آواز بلند نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ یہ مقامات روحانیت، رحمت اور ایمان کی تازگی کے مظاہر ہیں۔ اور اسی طرح ایسے اعمال سے بھی پرہیز ضروری ہے جن کے ظاہر سے دین میں خلل، کردار پر طعن، یا عقیدے میں بگاڑ کا شبہ پیدا ہو، کیونکہ ایسے افعال ان مبارک زیارات کے روحانی سکون کو متاثر کر دیتے ہیں اور انکار و فتنہ انگیزی کا سبب بن سکتے ہیں۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.