نماز کی جماعت میں شامل ہونے والے شخ...

Egypt's Dar Al-Ifta

نماز کی جماعت میں شامل ہونے والے شخص کو جب صف میں جگہ نہ ملےتو کیا کرے

Question


جو شخص جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے آیا مگر اسے صف میں جگہ نہ ملی، تو اسے کیا کرنا چاہیے؟

Answer

الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛ اور مختار قول یہ ہے کہ اگر کوئی شخص جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں داخل ہو اور صف میں جگہ نہ پائے تو اسے چاہیے کہ صفِ کامل میں سے کسی نمازی کو اشارے سے متوجہ کرے، بشرطیکہ غالب گمان ہو کہ وہ اس کی بات مان لے گا، پھر نرمی کے ساتھ اسے پیچھے کھینچ لے تاکہ دونوں پچھلی صف میں کھڑے ہو جائیں۔ لیکن ا گر اسے غالب گمان یہ ہو کہ صف میں سے کوئی اس کی طرف نہیں آئے گا، یا اس نے کسی کو متوجہ کیا مگر وہ نہ آیا، تو وہ صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھ لے، اس پر نہ کوئی گناہ ہے اور نہ ہی کوئی حرج۔ اسی سے اس مسئلے کا جواب واضح ہوجاتا ہے۔

تفاصیل:

باجماعت نماز کی فضیلت
جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مؤمنوں کے اتحاد و یکجہتی کا ایک نمایاں مظہر ہے۔ اس سے ان کی زبان و دل میں یکسانیت پیدا ہوتی ہے اور یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مددگار اور بھائی ہیں، جو اللہ کی مضبوط رسی کو تھامے ہوئے ہیں۔ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی عملی صورت پیش کرتے ہیں جس میں فرمایا گیا: ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾ ترجمہ: اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔ (آلِ عمران: 103)

اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی فضیلتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ شیطان اور اس کے گروہ سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین آدمی کسی بستی یا جنگل میں ہوں اور وہ جماعت سے نماز نہ پڑھیں تو ان پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے، لہٰذا تم جماعت کو لازم پکڑو، اس لیے کہ بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہوتی ہے''۔ اسے امام ابوداؤد، نسائی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

اور چونکہ با جماعت نماز کو مسلمان کی زندگی میں بے حد اہمیت حاصل ہے، اس لیے نبی اکرم ﷺ نے اس پر زور دیا، اس کی ترغیب دلائی اور اس کے قائم کرنے پر بڑا اجر مقرر فرمایا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:  ''جماعت کے ساتھ پڑھی گئی نماز، اکیلے پڑھی گئی نماز پر ستائیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے''۔ یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے اور متفق علیہ ہے۔

نماز کی جماعت میں شامل ہونے والے شخص کو جب صف میں جگہ نہ ملےتو کیا کرے؟

جو شخص نماز کی جماعت میں شامل ہونا چاہے اور اسے صف میں کوئی جگہ یا کشادگی نہ ملے، تو فقہاء کے درمیان اس کے عمل کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔

حنفی فقہاء کے نزدیک: اگر کسی کو صف میں جگہ نہ ملے تو اس کے بارے میں دو قول ہیں: ایک قول کے مطابق وہ اکیلا کھڑا ہو کر نماز پڑھ لے اور اس صورت میں معذور سمجھا جائے گا۔
دوسرے قول کے مطابق وہ صف میں سے کسی ایک شخص کو اپنی طرف کھینچ لے تاکہ وہ اس کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔

لیکن زیادہ صحیح اور امام محمد بن حسن الشیبانی (جو امام ابوحنیفہ کے شاگردوں میں سے ہیں) سے مروی رائے یہ ہے کہ وہ شخص رکوع تک انتظار کرے، اگر کوئی شخص آ جائے تو وہ اس کے ساتھ نماز پڑھ لے، اور اگر کوئی نہ آئے تو صف میں سے کسی ایک کو آہستگی سے اپنی طرف کھینچ لے تاکہ وہ اس کے ساتھ کھڑا ہو جائے، یا خود کسی طرح صف میں شامل ہو جائے۔ البتہ اگر اسے غالب گمان ہو کہ کسی کو کھینچنے سے اس کی نماز فاسد ہو سکتی ہے، تو بہتر ہے کہ وہ اکیلا ہی نماز پڑھ لے۔ امام ابن عابدینؒ نے مذکورہ اقوال کے مابین تطبیق کو پسند فرمایا ہے، اور فرمایا کہ ایسے موقع پر معاملہ اُس شخص کی رائے پر چھوڑ دیا جائے جو اس حالت سے دوچار ہو۔ پس اگر وہ صف میں کسی ایسے شخص کو دیکھے جو دیندار، نرم مزاج ہو اور اس کے ساتھ کھڑا ہونے سے تکلیف محسوس نہ کرے، یا اس کا دوست ہو تو وہ اس کے قریب ہو کر کھڑا ہوجائے، یا اگر کوئی عالم ہو تو اُسے اپنی طرف کھینچ لے؛ اور اگر ایسا کوئی نہ ہو تو وہ اکیلا نماز پڑھے۔(دیکھیے: رد المحتار للإمام ابن عابدین، ج 1، ص 647، دار الفكر)

اور عالم ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ اس مسئلے کے شرعی حکم کو جانتا ہو۔ اس شرط کا مقصد یہ ہے کہ جسے پیچھے کھینچا جا رہا ہے، وہ اس بات سے واقف ہو کہ صفِ اوّل سے کسی کو پیچھے لانا شرعاً جائز ہے، اور یہ بھی جانتا ہو کہ اس موقع پر اسے ایسا کیا کرنا چاہیے جس سے اس کی نماز فاسد نہ ہو، تاکہ وہ ایسا عمل زیادہ نہ کرے جس سے نماز ٹوٹ جائے، یا جاذب (کھینچنے والے) کی طرف متوجہ ہونے میں زیادہ دیر نہ لگائے؛ کیونکہ بعض فقہاء کے نزدیک دورانِ نماز کسی غیر کے حکم پر عمل کرنا گویا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے حکم کی اطاعت ہے، جس سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ (دیکھیے: حاشیة الإمام الطحطاوي على مراقي الفلاح، ص 307، دار الكتب العلمية)

اور مالکیہ کے نزدیک اگر مقتدی کو صف میں جگہ نہ ملے تو وہ اکیلا صف کے پیچھے کھڑا ہو کر نماز پڑھے، اور کسی کو صف سے کھینچ کر اپنے ساتھ کھڑا نہ کرے، تاکہ دوسرے کو اگلی صف کی فضیلت سے محروم نہ کرے۔ بلکہ اگر وہ کسی کو کھینچ لے تو جسے کھینچا گیا ہے، اس پر لازم ہے کہ وہ اس کی بات نہ مانے بلکہ اپنی جگہ پر ہی کھڑا رہے۔(دیکھیے: التاج والإكليل للإمام أبي عبد الله المواق المالكي، ج 2، ص 446، دار الكتب العلمية)

اور شافعیہ کے نزدیک اگر آنے والے کو صف میں کوئی جگہ یا کشادگی ملے تو وہ اس میں داخل ہو جائے، اور اگر پچھلی صف میں جگہ نہ ہو مگر اس سے آگے کسی صف میں ہو تو وہ اس صف میں پہنچنے کے لیے پچھلی صف کو چیر سکتا ہے، کیونکہ پچھلی صف والوں نے وہاں جگہ چھوڑ کر کوتاہی کی۔
اور اگر نہ آگے کسی صف میں جگہ ہو اور نہ پچھلی میں، تو اس صورت میں دو قول ہیں: پہلا یہ کہ وہ اکیلا صف کے پیچھے کھڑا ہو جائے اور کسی کو نہ کھینچے، تاکہ کسی دوسرے کو اگلی صف کی فضیلت سے محروم نہ کرے۔
اور دوسرا قول — جو زیادہ صحیح ہے — یہ ہے کہ اس کے لئے مستحب ہے کہ وہ کسی ایک نمازی کو صف سے کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لے، تاکہ صف میں شریک ہونے کی فضیلت حاصل کرے اور اختلاف سے نکل جائے، مگر یہ عمل وہ صرف تکبیرِ تحریمہ کے بعد کرے۔ (دیکھیے: المجموع للإمام النووي، ج 4، ص 297–298، دار الفكر)

 اور حنابلہ کے نزدیک اگر ممکن ہو تو وہ امام کے دائیں جانب کھڑا ہو، کیونکہ ایک مقتدی کا مقام یہی ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو وہ صف میں سے کسی شخص کو اشارے سے متنبہ کرے کہ وہ پیچھے ہٹ کر اس کے ساتھ صف بنا لے۔ البتہ اسے ہاتھ سے کھینچنا مکروہ ہے، اور امام احمد اور امام اسحاق نے اسے ناپسند قرار دیا ہے، کیونکہ یہ اس کی اجازت کے بغیر تصرف ہے۔ البتہ بعض کے نزدیک اگر ضرورت ہو تو کسی مقتدی کو کھینچ لینا بغیر کراہت کے جائز ہے۔ پھر اگر وہ کسی شخص کو پیچھے آنے کے لیے کھینچے اور وہ اس کے ساتھ پیچھے والی صف میں آنے سے انکار کر دے، تو اسے زبردستی مجبور کرنا یا زیادہ اصرار کرنا جائز نہیں۔ ایسی صورت میں وہ اکیلا ہی صف کے پیچھے نماز پڑھ لے، یا پھر کسی دوسری جماعت کا انتظار کرے اور ان کے ساتھ نماز ادا کرے۔(ملاحظہ ہو: المبدع في شرح المقنع از امام برہان الدین ابن مفلح، 2/95-96، دار الکتب العلمیة)۔

اور مختار قول یہ ہے کہ اگر کوئی شخص جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں داخل ہو اور صف میں جگہ نہ پائے تو اسے چاہیے کہ صفِ کامل میں سے کسی نمازی کو اشارے سے متوجہ کرے، بشرطیکہ غالب گمان ہو کہ وہ اس کی بات مان لے گا، پھر نرمی کے ساتھ اسے پیچھے کھینچ لے تاکہ دونوں پچھلی صف میں کھڑے ہو جائیں۔ کیونکہ حضرت وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو صفوں کے پیچھے اکیلا نماز پڑھ رہا تھا۔  تو آپ ﷺ نے فرمایا:"اے اکیلے نماز پڑھنے والے! کیا تُو صف میں شامل نہیں ہوسکتا تھا، یا کسی شخص کو اپنی طرف کھینچ کر اپنے ساتھ کھڑا نہیں کر سکتا تھا؟"(اسے امام بیہقی نے السنن الکبریٰ میں روایت کیا ہے۔) لیکن اگر اسے غالب گمان یہ ہو کہ صف میں سے کوئی اس کی طرف نہیں آئے گا، یا اس نے کسی کو متوجہ کیا مگر وہ نہ آیا، تو وہ صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھ لے، اس پر نہ کوئی گناہ ہے اور نہ ہی کوئی حرج۔ اسی سے اس مسئلے کا جواب واضح ہوجاتا ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas