انتخابی ووٹ خریدنے کا حکم

Egypt's Dar Al-Ifta

انتخابی ووٹ خریدنے کا حکم

Question

انتخابی ووٹ خریدنے کے لیے ووٹروں کو پیسے دینا اور اُن کے انتخاب پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟ اور کیا یہ عمل شرعی طور پر حرام رشوت میں شامل ہوتا ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ ووٹروں کو پیسے دے کر انتخابی ووٹ خریدنا شرعاً حرام ہے، کیونکہ یہ رشوت کے زمرے میں آتا ہے اور یہ کبیرہ گناہوں میں شمار ہونے والی رشوت ہے۔ اسی طرح، ووٹر کا کسی خاص امیدوار کو مال یا کسی فائدے کے بدلے ووٹ دینا جھوٹی گواہی کے مترادف ہے، اس کے علاوہ یہ عمل عام لوگوں کے لیے نقصان کا باعث بنتا ہے، اور لوگوں کو نقصان پہنچانا شرعاً منع اور حرام ہے۔

 

تفاصیل:

اسلامی شریعت میں سب سے زیادہ با صلاحیت اور اہل شخص کو ذمہ داری دینے کا حکم  

شریعتِ مطہرہ نے اس بات کی تاکید کی ہے کہ لوگوں کے معاملات ایسے شخص کے سپرد کیے جائیں جو سب سے زیادہ با صلاحیت اور اہل ہو، اور ذمہ داری اور منصب اسی کو دیا جائے جس میں امانت اور صلاحیت کی صفات پائی جائیں، کیونکہ اس میں مفادِ عامہ اور ملک و قوم کے مفادات درست طور پر منظم ہوتے ہیں۔  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا﴾  ترجمہ: "بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو" (النساء: 58)۔ امانتوں کو ان کے اہل کے سپرد کرنے کے اس حکم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ لوگوں کے امور سنبھالنے کے لیے درست اور اہل شخص کا انتخاب کیا جائے، کیونکہ یہ سب سے بڑی اور سب سے زیادہ اثر رکھنے والی امانتوں میں سے ہے۔

امام علاء الدین خازن نے لباب التأویل (1/391، دار الکتب العلمیة) میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:
"کہا گیا ہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں تمام امانتوں کے بارے میں عام حکم ہے، اور سببِ نزول کے خاص ہونے سے حکم کا عموم ختم نہیں ہوتا۔ لہٰذا انسان پر جو بھی امانتیں ڈالی گئی ہیں، سب اس حکم میں داخل ہیں۔"

 

انتخابی ووٹ خریدنے کا حکم

انتخابات وہ عمل ہے جس کے ذریعے قانونی شرائط پوری کرنے والے شہریوں کو یہ اختیار دیا جاتا ہے، کہ وہ عوامی یا پارلیمانی عہدوں کے لیے نمائندوں کے انتخاب میں ووٹ کے ذریعے حصہ لیں، یا عام ریفرنڈمز میں شرکت کریں، اور یہ سب سیاسی حقوق کے استعمال سے متعلق قوانین کے مطابق انجام پاتا ہے۔

جہاں تک ووٹروں کو پیسے دے کر اُن کے ووٹ خریدنے اور انتخاب پر اثر انداز ہونے کا تعلق ہے تو یہ رشوت کی ایک قسم ہے۔ رشوت کی تعریف یہ ہے: "وہ چیز جو کسی حق کو باطل کرنے یا کسی باطل کو حق ثابت کرنے کے لیے دی جائے"، جیسا کہ شریف جرجانی نے اپنی کتاب التعریفات (ص 111، دار الکتب العلمیة) میں بیان کیا ہے۔

 

رشوت قرآن و سنت دونوں کے واضح دلائل کی رو سے شرعاً حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ﴾ ترجمہ:  " یہ کان لگا لگا کر جھوٹ کے سننے والے اور جی بھر بھر کر حرام کے کھانے والے ہیں، (المائدہ: 42)، اور یہاں حرام کھانے سے مراد رشوت ہے، جیسا کہ امام فخر الدین رازی نے مفاتیح الغیب (11/361، دار احیاء التراث العربی) میں بیان کیا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ وَالمُرتَشِيَ»: "رسول اللہ ﷺ نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت فرمائی"۔ اسے ابو داود، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ اور ایک روایت میں «وَالرَّائِشَ»  کااضافہ ہے" اسے امام احمد نے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

اور (الرائش) وہ شخص ہے جو رشوت دینے والے اور لینے والے کے درمیان رابطے اور معاملہ مکمل کرانے کا کام کرتا ہے، جیسا کہ زین الدین مناوی نے فیض القدیر (5/268، المکتبۃ التجاریہ) میں بیان کیا ہے۔

امام شمس الدین ذہبی نے رشوت کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے، جیسا کہ ان کی کتاب الکبائر (ص 131، دار الندوۃ) میں بیان ہوا ہے۔ اور شیخ الاسلام ابن حجر ہیتمی نے بھی اسی کی تائید کی ہے، جیسا کہ ان کی کتاب الزواجر عن اقتراف الكبائر (2/312، دار الفکر) میں موجود ہے۔

مال یا کسی فائدے کے بدلے ووٹ دینا جھوٹی گواہی کے مترادف ہونا

کسی ووٹر کا کسی خاص امیدوار کو مال یا کسی فائدے کے بدلے ووٹ دینا جھوٹی گواہی کے زمرے میں آتا ہے۔ جھوٹی گواہی وہ ہے جس میں انسان ایسی بات کی گواہی دے جس کا اسے علم نہیں، چاہے وہ حقیقت کے مطابق ہی کیوں نہ ہو"، جیسا کہ امام شهاب الدین نفراوی نے الفواکہ الدوانی (2/278، دار الفكر) میں بیان کیا ہے۔

اسے جھوٹی گواہی اس لیے کہا گیا ہے کہ ووٹ دراصل ایک گواہی ہے — امیدوار کی امانت، صلاحیت اور عوامی ذمہ داری سنبھالنے کی اہلیت پر گواہی۔ لہٰذا جب ووٹ محض مال یا کسی فائدے کے لیے دیا جائے تو یہ حقیقت کو بگاڑنے، گواہی کے مقصد کو خراب کرنے اور قوم کے عمومی مفاد میں دھوکے کے مترادف ہے۔

شریعتِ مطہرہ نے جھوٹی گواہی اور اس کے کاموں سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے، اور اس پر عمل کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے، ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ﴾ ترجمہ: "پس بتوں کی گندگی سے بچو، اور جھوٹی بات (جھوٹی گواہی) سے بھی بچو" (الحج: 30)۔

نبی ﷺ نے بھی جھوٹی گواہی کو کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ ہم نے عرض کیا ضرور بتائیے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ٹیک لگائے ہوئے تھے اب آپ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا”اور آگاہ ہو جاؤ جھوٹی گواہی دینا(بھی گبیرہ گناہوں میں سے ہے)“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باربار اسے دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا: ”کاش آپ خاموش ہو جائیں “۔ (متفق علیہ)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: "کیا میں تمہیں سب سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟" صحابہ نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: «قَولُ الزُّورِ» أَو قَالَ: «شَهَادَةُ الزُّورِ» یعنی "جھوٹی گواہی دینا"۔ (متفق علیہ)

امام شهاب الدین نفراوی نے الفواکہ الدوانی (2/278) میں فرمایا: "جھوٹ کی تحریم کتاب، سنت اور امت کے اجماع سے ثابت ہے"۔

انتخابی ووٹ خریدنے کے عمومی نقصانات

انتخابی ووٹ خریدنے سے عام لوگوں کا بہت بڑا نقصان ہوتا ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں نااہل افراد کو ذمہ داریاں دی جاتی ہیں، وہ لوگ جو عوامی معاملات چلانے کے قابل نہیں، وہ اقتدار میں آ جاتے ہیں، اور اہل و امانت دار افراد کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس سے انتظامیہ کا فساد، حقوق کا ضیاع، قوم اور ملک کے مفادات کا تعطل ہوتا ہے، اور لوگوں کو نقصان پہنچانا شریعت میں منع ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: "جو شخص کسی قبیلے میں سے کسی فرد کو اختیار دیتا ہے، حالانکہ اس قبیلے میں اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ پسندیدہ فرد موجود ہو، اس نے اللہ سے خیانت کی ، اس کے رسول ﷺ سے خیانت کی اور مؤمنین سے خیانت کی ہے"۔ (امام حکیم نے روایت کیا)۔

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ولایت اور ذمہ داری کے مناصب پر سب سے بہتر اور زیادہ مستحق شخص ہی کو مقرر کرنا واجب ہے، اور جو شخص اس قابل نہ ہو اسے منصب دینا اُس امانت میں خیانت ہے جسے ادا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، اور یہ عمل شریعت کے اس مقصد کے بھی خلاف ہے جس کا تعلق عام بھلائی اور اجتماعی اصلاح کے قیام سے ہے۔ حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا: ”کسی کو نقصان پہنچانا جائز نہیں نہ ابتداء ً نہ مقابلۃ ً“ ۔ (ابن ماجہ)
حضرت ابوصرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی کو نقصان پہنچائے گا اللہ تعالیٰ اسے نقصان پہنچائے گا، اور جو کسی پر سختی کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر سختی کرے گا“ "۔ (ابو داود، ترمذی، ابن ماجہ)

ملا علی قاری نے مرقاة المفاتيح میں لکھا ہے کہ "نقصان" کے مفہوم میں جسمانی نقصان، مالی نقصان، دنیاوی نقصان اور اخروی نقصان—سب شامل ہیں۔

انتخابی ووٹ خریدنے کی قانونی سزا
مصر کے قانونِ تنظیمِ مباشرتِ حقوقِ سیاسیہ نمبر (45) سنہ 2014ء کی دفعہ نمبر (65) میں یہ بیان کیا گیا ہے: اسے کم از کم ایک سال قید اور کم از کم ایک ہزار پاؤنڈ جرمانے کی سزا دی جائے گی، جو زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار پاؤنڈ تک ہو سکتی ہے، یا پھر ان دونوں میں سے کسی ایک سزا کا حکم دیا جائے گا جو شخص درج ذیل میں سے کسی بھی عمل کا ارتکاب کرے۔۔۔ دوم: جس نے کسی شخص کو فائدہ دیا، یا فائدہ دینے کی پیشکش کی، یا دینے کا وعدہ کیا — چاہے وہ فائدہ خود اسے دیا جائے یا کسی اور کو — اس مقصد سے کہ وہ اپنا ووٹ کسی خاص طریقے سے ڈالے یا ووٹ دینے سے رک جائے۔ اسی طرح جو شخص اس قسم کا کوئی فائدہ اپنے لیے یا کسی دوسرے کے لیے قبول کرے یا اس کا مطالبہ کرے، وہ بھی اسی سزا کا مستحق ہوگا۔

خلاصہ
اس بنیاد پر اور سوال کی صورتِ حال کے مطابق: ووٹروں کو پیسے دے کر انتخابی ووٹ خریدنا شرعاً حرام ہے، کیونکہ یہ رشوت کے زمرے میں آتا ہے اور یہ کبیرہ گناہوں میں شمار ہونے والی رشوت ہے۔ اسی طرح، ووٹر کا کسی خاص امیدوار کو مال یا کسی فائدے کے بدلے ووٹ دینا جھوٹی گواہی کے مترادف ہے، اس کے علاوہ یہ عمل عام لوگوں کے لیے نقصان کا باعث بنتا ہے، اور لوگوں کو نقصان پہنچانا شرعاً منع اور حرام ہے۔

 

والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

Share this:

Related Fatwas