طلاقِ رجعی پر مترتب ہونے والے ازدوا...

Egypt's Dar Al-Ifta

طلاقِ رجعی پر مترتب ہونے والے ازدواجی احکام

Question

طلاقِ رجعی کیا ہے؟ اور اس پر کون سے احکام مترتب ہوتے ہیں؟

Answer

الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛ طلاقِ رجعی وہ طلاق ہے جس میں مرد اپنی اُس بیوی کو، جس سے صحبت ہو چکی ہو، تین طلاقوں سے کم طلاق دیتا ہے اور وہ طلاق کسی مالی معاوضے کے بدلے بھی نہ ہو۔ اس طلاق کا حکم یہ ہے کہ جب تک عورت عدت میں ہو، نہ تو نکاح کی ملکیت ختم ہوتی ہے اور نہ ہی حلت (ازدواجی تعلق کی اجازت) زائل ہوتی ہے، بلکہ اس طلاق سے صرف شوہر کے پاس موجود طلاقوں کی تعداد میں کمی واقع ہوتی ہے۔

اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ جس عورت کو طلاقِ رجعی دی گئی ہو اس کے لیے نکاح کے تمام احکام باقی رہتے ہیں، یعنی وہ اپنے شوہر کے لیے پابند ہوتی ہے، اس پر کسی دوسرے مرد سے نکاح حرام ہوتا ہے، اس کی عصمت شوہر کے اختیار میں برقرار رہتی ہے، یہاں تک کہ شوہر عدت کے اندر اس کی رضامندی کے بغیر بھی اسے واپس لے سکتا ہے، اور اگر شوہر اس کی عدت کے دوران وفات پا جائے تو وہ اس کی وارث بھی بنتی ہے۔

علامہ بابرتی حنفی نے "العناية شرح الهداية" (4/ 174، ط. دار الفكر) میں فرمایا: اور مصنف کا یہ قول کہ: (والمطلقة الرجعية تتشوَّف وتتزين)  یعنی: رجعی طلاق والی عورت اپنے آپ کو سنوارے اور زیبائش کرے"— یہاں ‘تشوف’ خاص طور پر چہرے کے لیے ہے اور ‘تزين’ سے مراد عام زینت ہے۔ یہ الفاظ بابِ‘تفعّل’ سے ہیں، اور یہ "شُفتُ الشيء جلوته" سے ماخوذ ہیں یعنی کسی چیز کو دیکھا اور اس کی جلک دیکھی۔ اور ‘دينار مشوف’ یعنی چمکدار صاف دینار، مراد یہ ہے کہ عورت اپنا چہرہ نمایاں اور صاف کرے اور رخصاروں کو خوبصورت اور چمکدار بنائے۔ اور ان کا یہ قول: (کیونکہ نکاح دونوں کے درمیان باقی ہے) اس بات کی دلیل ہے کہ ان دونوں کے درمیان وراثت کا تعلق بھی باقی رہتا ہے، اور اسی طرح نکاح کے تمام احکام بھی برقرار رہتے ہیں۔

اور امام حرمين جُوَینی شافعی نے اپنی کتاب "نهاية المطلب" (14/ 48، ط. دار المنهاج) میں فرمایا: رجعی طلاق والی عورت جب تک عدت میں ہو اپنے شوہر کی بیوی ہوتی ہے ۔

اور امام ابن قدّامہ حنبلی نے اپنی کتاب "المغني" (7/ 519، ط. مكتبة القاهرة) میں فرمایا: رجعی طلاق والی عورت اپنے شوہر کی بیوی ہوتی ہے جس پر شوہر کی طلاق، ظهار، ایلاء اور لعان واقع ہو سکتے ہیں، اور دونوں میں سے ہر ایک اپنے شریک پر وراثت کا حق رکھتا ہے، اور یہ اجماع سے ثابت ہے۔

اسی بیان سے سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas