لوگوں پر ظلم کرنے والوں کے اکاؤنٹس ہیک کرنے کا حکم
Question
ہیکر کا ان لوگوں کے اکاؤنٹس ہیک کرنے کا کیا حکم ہے جو دوسروں پر زیادتی کرتے ہیں؟ میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرتا ہوں، اور کبھی کبھی کچھ لوگ میرے پاس آتے ہیں کہ میں کسی شخص کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ یا ای میل کو ہیک کر دوں جس نے انہیں نقصان پہنچایا ہوتا ہے، اور وہ کسی بھی طریقے سے ان سے اپنا حق نہیں لے سکتے۔ میرا مقصد اس شخص کے ذاتی اکاؤنٹ میں داخل ہو کر اس کے راز، نجی معلومات اور حساس نوعیت کی چیزیں حاصل کرنا ہوتا ہے، پھر میں اسے بتاتا ہوں کہ اگر اس نے مخصوص رقم ادا نہ کی تو میں اس کی یہ نجی اور حساس معلومات شائع کر دوں گا۔ میں یہ رقم اس کے ظلم کے برابر متعین کرتا ہوں تاکہ مظلوموں کی تلافی ہو سکے، اور اس کام میں اپنی محنت کی اجرت بھی شامل کرتا ہوں۔ تو ان تمام کاموں کا شرعی حکم کیا ہے؟
Answer
الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛ لوگوں کے اکاؤنٹس کو یہ کہہ کر ہیک کرنا کہ وہ دوسروں پر ظلم کرتے ہیں، شریعت میں حرام ہے۔ اور یہ عمل نہ تو مظلوم کی درخواست پر جائز ہے اور نہ ہی بغیر درخواست کے؛ کیونکہ یہ ایک ناجائز حربہ ہے ایسے معاملے میں جس کے لیے ثبوت اور درست انداز میں فیصلہ کرنا ضروری ہے، اور یہ کام عدالت یا متعلقہ اداروں کا ہے۔ اسی طرح کسی کا اکاؤنٹ ہیک کرنا، یا ہیک کرنے کا مطالبہ کرنا یا اس پر اُکسانا، اپنی اصل میں شرعاً حرام اور قانوناً جرم ہے۔
ان لوگوں کیلئے اپنا حق لینے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ وہ متعلقہ اور مجاز اداروں سے رجوع کریں، یا پھر صبر کریں اور اللہ تعالیٰ کے اُس بڑے اجر کی امید رکھیں جو اس نے صبر کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے۔ یا معاف کر دیں اور درگزر کریں تو ان کا ثواب اور بھی بڑھ جائے گا۔ یا اپنی مظلومیت کو قیامت کے دن کے لیے مؤخر کر دیں، جہاں سب جھگڑوں کا فیصلہ اللہ ہی کے حضور ہوگا۔
ہیکر کا مفہوم بیان کرنا:
ہیکر عام طور پر اُس پروگرامر کو کہا جاتا ہے جو سسٹمز میں چھیڑ چھاڑ کرتا ہے۔ یہ وہ شخص ہوتا ہے جو مختلف اکاؤنٹس اور آپریٹنگ سسٹمز کے پروگراموں کے ساتھ تکنیکی کھیل کرنے کا شوقین ہوتا ہے۔ اس کا عمل کبھی اچھے مقصد کے لیے ہوتا ہے، جیسے کسی پروگرام میں فائدہ مند خصوصیات شامل کرنا، اور کبھی برے مقصد کے لیے ہوتا ہے، جیسے سسٹم کو خراب کرنا، اس کی رفتار گھٹانا، یا اسے وائرس کے ذریعے نقصان پہنچانا۔ یہ تعریف قاہرہ میں موجود مجمع اللغة العربیہ کی مرتب کردہ کتاب "معجم الحاسبات" (صفحہ 135، تیسرا ایڈیشن، 2003ء) میں مذکور ہے۔
ظالم لوگوں کے اکاؤنٹس ہیک کرنے کا حکم
سوال میں جس بات کا ذکر ہے، یعنی کسی شخص کے اس دعوے کی بنیاد پر اُس کے ذاتی اکاؤنٹ کو ہیک کرنا کہ اُس نے لوگوں پر ظلم کیا ہے یا انہیں تکلیف پہنچائی ہے، پھر اس کی ذاتی اور خفیہ معلومات حاصل کرنا، اور ان معلومات کو پیسے کے مطالبے کے لیے بطور دھمکی استعمال کرنا — تاکہ وہ رقم مظلوموں کو دے دی جائے اور اس میں سے کچھ حصہ ہیکر کی اجرت کے طور پر لیا جائے — تو یہ حقیقت میں دوسرے شخص کے ذاتی الیکٹرونک اکاؤنٹ میں ناجائز طور پر داخل ہونا ہے۔
ذاتی اکاؤنٹ سے مراد معلومات کا وہ مجموعہ ہے جو کسی فرد یا ادارے سے خاص ہو، اور جس تک صرف اسی شخص کو رسائی حاصل ہو تاکہ وہ کسی ویب سائٹ یا معلوماتی نظام کے ذریعے دستیاب خدمات تک رسائی حاصل کر سکے یا انہیں استعمال کر سکے۔ اس کی یہی تعریف مصر کے قانون نمبر 175 (سال 2018ء)، -جو انفارمیشن ٹیکنالوجی جرائم سے متعلق ہے- کی دفعہ (1) شق (15) میں بیان کی گئی ہے۔
جب یہ بات واضح ہو گئی تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کے ذاتی الیکٹرونک اکاؤنٹ میں اس کی اجازت کے بغیر داخل ہونا اُس کی پرائیویسی پر حملہ ہے، چاہے اس عمل کی کوئی بھی وجہ یا محرک بیان کیا جائے۔ لوگوں کی پرائیویسی—چاہے وہ مادی ہو، معنوی ہو یا ڈیجیٹل—شرعًا بھی محترم ہے اور قانونًا بھی۔
شریعت نے دوسروں کی نجی زندگی کا احترام کرنے کا حکم دیا ہے اور بدگمانی سے روکا ہے، نیز لوگوں کے معاملات، رازوں اور عیبوں کی ٹوہ میں لگنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا﴾ ترجمہ: ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بہت سے گمانوں سے بچو، یقینا بعض گمان گناہ ہوتے ہیں اور نہ جاسوسی کرو “ (الحجرات: 12)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بدگمانی سے دور رہو کیونکہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے، دوسروں کے ظاہری عیب تلاش نہ کرو نہ دوسروں کے باطنی عیب ڈھونڈو، مال و دولت میں ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت نہ کرو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، آپس میں بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو، اور اللہ کے ایسے بندے بن کر رہو جو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔“ متفق علیہ۔
تجسس صرف دوسروں کی پوشیدہ چیزوں اور کمزوریوں کو دیکھنے تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس میں دوسروں کی نجی معلومات، راز اور وہ چیزیں بھی شامل ہیں جو وہ لوگوں سے چھپاتے ہیں، اور کسی کو اس کی اجازت کے بغیر یا مجاز اداروں کی اجازت کے بغیر ان تک رسائی حاصل کرنا جائز نہیں۔
اس میں اصل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشادِ گرامی ہے: ﴿وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾ ترجمہ: "اور زیادتی نہ کرو، بے شک اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا﴾ [البقرة: 190]۔
جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے بھائی کی اجازت کے بغیر اس کی کتاب دیکھے، گویا وہ آگ میں دیکھ رہا ہے۔’’ (ابو داؤد)
امام ابن الأثير رحمہ اللہ "النهاية في غريب الحديث والأثر" میں لکھتے ہیں کہ یہ ایک مثال ہے؛ یعنی جس طرح انسان آگ سے ڈرتا ہے، اسی طرح اسے چاہیے کہ اس عمل (بلا اجازت کسی کا لکھا ہوا دیکھنے) سے بھی ڈرے۔ بعض نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ گویا اُن چیزوں کو دیکھ رہا ہے جو اس کے لیے آگ (جہنم) کا سبب بن سکتی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں مراد آنکھ کی سزا ہو، کیونکہ یہ گناہ اسی کے ذریعے ہوتا ہے، جیسے کان کو سزا ملے گی اگر وہ ان لوگوں کی باتیں سنتا ہے جو وہ نہیں چاہتے کہ کوئی انہیں سنے۔ اس حدیث وہ وہ کتاب مراد ہے جس میں کوئی راز یا امانت ہو اور اس کا مالک نہ چاہتا ہو کہ کوئی اس پر مطلع ہو۔ اور بعض اہلِ علم نے کہا کہ یہ حکم عام ہے اور ہر قسم کی کتاب کو شامل ہے۔
اسی تناظر میں علماء کی نصوص بھی وارد ہوئی ہیں۔ امام النفراوی المالکی نے اپنی کتاب "الفواكه الدواني" میں فرمایا: نظر کو حرام کردہ عورتوں سے بچانا ہی ضروری نہیں، بلکہ ہر اس چیز سے نظریں روکنا لازم ہے جو کسی دوسرے کی تحقیر کے ارادے سے دیکھی جائے، یا مسلمانوں کی عیب جوئی اور ان کی پوشیدہ باتوں کو تلاش کرنے کے لیے دیکھی جائے، خواہ وہ کوئی تحریر ہو یا کوئی اور چیز جس کا مالک نہیں چاہتا کہ کوئی اسے دیکھے۔
امام شهاب الدین الرملي "حاشیہ أسنى المطالب" میں لکھتے ہیں: اگر خط میں کوئی راز ہو تو مخاطب (جس کے نام خط لکھا گیا ہے) کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس راز کو پھیلائے یا کسی دوسرے شخص کو اس خط یا اس کے مضمون پر مطلع کرے… اور اگر یہ شخص خط پڑھ کر اسے پھینک دے، یا اس کی وفات کے بعد اس کی چیزوں میں وہ خط ملے، تب بھی اس خط کو پڑھنا جائز نہ ہوگا؛ کیونکہ ممکن ہے اس میں لکھنے والے کا کوئی ایسا راز ہو جس کے ظاہر ہونے کو وہ پسند نہ کرتا ہو۔"
جیسا کہ انسان کو ان لوگوں کی باتیں سننے سے منع کیا گیا ہے جو نہیں چاہتے کہ وہ سنی جائیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کو سخت وعید سناتے ہوئے فرمایا:" اور جو شخص دوسرے لوگوں کی بات سننے کے لیے کان لگائے جو اسے پسند نہیں کرتے یا اس سے بھاگتے ہیں تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا"۔(بخاری)
اس عمل کرنے والا ایسے ہے جیسے اپنے کان کے ذریعے چوری کر رہا ہو، اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخرت میں سزا کا مستحق ہے۔ امام ابن ہبیرہ الشیبانی "الإفصاح عن معاني الصحاح" میں لکھتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سننے والا دراصل چور ہے، اگرچہ اس نے سونے یا درہم نہیں چرائے، بلکہ کان کے ذریعے سن کر اس میں ’آنک‘ (ایک قسم کا سخت پگھلا ہوا سیسہ) ڈال دیا جائے گا۔
اور ایسا کرنے والا (یعنی لوگوں کی ناپسندیدگی کے باوجود اُن کی باتیں چپکے سے سننے والا) اس چور کی طرح ہے جو اپنے کانوں سے چوری کرتا ہے، اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں آخرت کی سزا کا مستحق بنتا ہے۔
امام ابن ہُبَیرة شیبانی نے الإفصاح عن معانی الصحاح (3/196) میں فرمایا ہے: “جو شخص اُن لوگوں کی باتیں سنتا ہے جو نہیں چاہتے کہ وہ ان کی بات سنے، وہ چور ہے؛ فرق صرف اتنا ہے کہ اس نے درہم و دینار ہاتھ سے نہیں چرائے کہ اس پر ہاتھ کاٹنے کی حد جاری ہو، بلکہ اس نے سماعت کے راستے سے چوری کی، اس لیے اس کے کان میں‘آنک’ پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔ ‘آنک’ ایک قسم کا سخت سیسہ ہوتا ہے۔”
یہ قطعی شرعی احکام جو افراد کے ذاتی حقوق—چاہے وہ مادی ہوں، معنوی ہوں یا ڈیجیٹل—کے احترام پر مبنی ہیں، انہی احکام کو مصری قانون ساز نے بھی بنیاد بنایا ہے۔ اس نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی وجہ سے، چاہے وہ ظلم کا جواب دینا یا چھینا ہوا حق واپس لینا ہو (جیسا کہ ہمارے مسئلے میں ہے)، کسی کے ذاتی اکاؤنٹ میں دھوکہ یا غیر قانونی داخلہ جرم شمار ہوگا، اور اس فعل کرنے والے کے لیے سزا واجب ہو گی۔
کسی بھی شخص کے نجی سوشل میڈیا اکاؤنٹ، ای میل یا اس جیسی کسی اور چیز میں پروگرامر کا اُس کی اجازت کے بغیر داخل ہونا یا قانونی اداروں کی جانب سے اجازت حاصل کیے بغیر رسائی حاصل کرنا، قانون کی زبان میں ہیکنگ کہلاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ: بغیر اجازت داخل ہونا، یا اجازت کی شرائط کے خلاف داخل ہونا، یا کسی بھی غیر قانونی طریقے سے کسی انفارمیشن سسٹم، کمپیوٹر، نیٹ ورک یا اس جیسی کسی اور چیز میں رسائی حاصل کرنا۔ جیسا کہ یہ تعریف مصری قانون نمبر 175 (سال 2018ء) کی دفعہ نمبر 1، شق 18 میں مذکور ہے۔
مصر کے قانون ساز نے کسی کے ذاتی اکاؤنٹ میں غیر قانونی داخلے کو جرم قرار دیا ہے اور اس پر سزا مقرر کی ہے، جو قید، جرمانہ یا دونوں ہو سکتی ہے، جیسا کہ مذکورہ قانون کی دفعہ 18 (پہلی شق) میں بیان ہے۔
اسی طرح سوال میں بیان کی گئی صورتِ حال کے مطابق اِس فعل میں دھمکی اور خوف دلا کر بلیک میل کرنے (ابتزاز) کا جرم بھی پایا جاتا ہے؛ کیونکہ پروگرامر (ہیکر) کے پاس وہ نجی معلومات موجود ہیں جن کے بارے میں متاثرہ شخص کو یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں اس کی پردہ پوشی نہ کھل جائے، یا انہیں رسوا کرنے کے لیے پھیلا نہ دیا جائے، یا دوسروں تک کسی بھی ذریعے سے پہنچا نہ دیا جائے۔ یہ تمام امور قانون کے مطابق جرم ہیں، جیسا کہ قانونِ تعزیرات مصر نمبر 58 سنہ 1937ء کی دفعات (326 اور 327) میں واضح ہے، جن میں ہر اُس کام کو جرم قرار دیا گیا ہے جس کا مقصد متاثرہ شخص کو خوف اور دھمکی کے ذریعے اس بات پر مجبور کرنا ہو کہ وہ اپنا مال یا مطلوبہ چیز حوالے کرے۔ اسی طرح قانون نمبر 175 سنہ 2018ء –جس کا پہلے ذکر ہو چکا– کے تیسرے باب میں نجی زندگی کی حرمت اور غیر قانونی معلوماتی مواد سے متعلق جرائم بیان کیے گئے ہیں۔ اس کی دفعہ (25) میں خاندانی اقدار کے خلاف زیادتی اور نجی زندگی کی خلاف ورزی کو جرم قرار دیا گیا ہے۔
شرعی طور پر بھی یہ بات مسلم ہے کہ "گناہ کے جواب میں گناہ نہیں کیا جا سکتا"، جیسا کہ قاضی ابو بکر ابن عربی مالکی نے "أحكام القرآن" میں فرمایا ہے۔
خلاصہ:
اس بنیاد پر اور سوال میں بیان شدہ واقعے کے لحاظ سے، یہ واضح ہے کہ اگر آپ سے کوئی شخص اپنے اوپر کیے گئے ظلم کے جواب میں کسی کے ذاتی اکاؤنٹ کو ہیک کرنے کو کہے تو اس میں شریک ہونا شرعاً حرام ہے، اور آپ کے لیے جائز نہیں کہ آپ ایسا کریں۔ کیونکہ یہ ایسے حق کو حاصل کرنے کے لیے ایک ناجائز حربہ ہے جس کے لیے ثبوت اور فیصلہ درکار ہے، اور یہ کام صرف عدلیہ یا متعلقہ قانونی اداروں کا اختصاص ہے۔ اسی طرح، کسی کا الیکٹرانک اکاؤنٹ ہیک کرنا، اس کے لیے کہنا یا ایسا کرنے کی ترغیب دینا بذاتِ خود شرعاً ممنوع اور قانوناً جرم ہے۔
ان لوگوں کیلئے اپنا حق لینے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ وہ متعلقہ اور مجاز اداروں سے رجوع کریں، یا پھر صبر کریں اور اللہ تعالیٰ کے اُس بڑے اجر کی امید رکھیں جو اس نے صبر کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے۔ یا معاف کر دیں اور درگزر کریں تو ان کا ثواب اور بھی بڑھ جائے گا۔ یا اپنی مظلومیت کو قیامت کے دن کے لیے مؤخر کر دیں، جہاں سب جھگڑوں کا فیصلہ اللہ ہی کے حضور ہوگا۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
Arabic
Englsh
French
Deutsch
Pashto
Swahili
Hausa
