حق شفعہ میں پڑوسی کا حق
Question
میں نے ایک زمین کا پلاٹ بیچنا چاہا اور میرے بعض ایسے رشتہ داروں نے اسے خریدنا چاہا جن کے ساتھ میرا خاندانی تعلق بھی ہے اور قریبی رشتہ داری بھی،اس پر میرے ایک پڑوسی نے اعتراض کیا اور بطور حجت یہ کہا کہ حق شفعہ اس کو حاصل ہے، اس لئے وہ یہ زمین خریدنے کا سب سے پہلا حقدار ہے، اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ اگر میں رشتہ داروں کو پڑوسی پر فوقيت دوں تو کیا یہ گناہ ہو گا؟.
Answer
اکثر فقہائے کرام کی رائے کے مطابق حق شفعہ تنگی پر مبنی ہے وسعت پر نہیں، کیونکہ حق شفعہ ایک طے شدہ اصول کے خلاف ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنی ملکیت میں اپنی مرضی سے تصرف کرے، اور فقہائے کرام کے نزدیک راجح رائے یہی ہے کہ یہ حق شریک کو حاصل ہوتا ہے پڑوسی کو نہیں، لیکن احناف کے نزدیک پڑوسی کو بھی حاصل ہے، اور بعض فقہاء کے نزدیک ہر اس شخص کو حاصل ہے جو بیچی جانے والی چیز کے فوائد میں شریک ہو جیسے کہ درآمدہ ایک ہو یا آبی ذخیرہ ایک ہو یا راستہ وغیرہ ایک ہو.
اس بنا پر اور سوال کے پیش نظر یہاں اس صورت میں پڑوسی کو حق شفعہ حاصل نہیں ہے کیونکہ وہ یہاں شریک نہیں ہے، اور مصر کے سِول قانون کے فقرہ ب دفعہ ٣٩٣ کے مطابق مصری حاکم نے جو اختیار کیا ہے وہ بھی اس رائے کی تائید کرتا ہے اس میں آیا ہے: ''اگر باپ بیٹوں کے درمیان یا میاں بیوی کے درمیان یا چوتھے درجے تک کے رشتہ داروں کے درمیان ، یا دوسرے درجے تک کے ازدواجی رشتہ داروں کے درمیان سودا طے ہوا ہو تو حق شفعہ کا اعتبار نہیں ہوگا ''. لہذا اسی قانون کے پیش نظر حالیہ وقت کے قاضی کے نزدیک بھی یہ صورت حق شفعہ سے خارج رہے گی، اور حق شفعہ کا یہ قانون صادر ہونے کے وقت سے ہی شریعت اسلامی سے ماخوذ ہے اگر چہ یہ قانون مضمون کے اعتبار سے نئے قانون سازی کے سانچے میں ڈھل گیا ہے، لیکن یہ قانون سازی شریعت اسلامی میں ترجيح یا اجتھاد کی ایک قسم تصور کی جاتی ہے جس کی پابندی لازم ہے، کیونکہ حاکم کا فیصلہ اختلاف کو ختم کر دیتا ہے.
باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.