مستحاضہ(وه عورت جسے ماہواری کے علاو...

Egypt's Dar Al-Ifta

مستحاضہ(وه عورت جسے ماہواری کے علاوہ خون آئے) کی عبادت

Question

ت سال ٢٠٠٥ مندر ج استفتا ء پر ہم مطلع ہوئے جو حسب ذیل سوال پر مشتمل ہے:

سائل نے استحاضہ (خلاف معمول یا بیماری کا خون ) کے بارے میں حکم شرعی طلب کیا ہے، سوال ہے کہ استحاضہ کے دوران عورت شرعی تکالیف پر عمل کرسکتی ہے یا نہیں؟
 

Answer

عورتوں کی چار قسمیں ہیں: پاک، حیض والی ، استحاضہ والی، اور فاسد خون والی. پاک وہ عورت ہے جو حیض سے خالی ہو، اور حیض والی وہ ہے جسے حیض کے اوقات میں اور اس کے شرائط کے ساتھ خون آئے، اور استحاضہ والی وہ عورت ہے جسے حیض کے بعد مزید خون آئے اور وہ حیض نہ ہو، اور فاسد خون والی وہ عورت ہے جسے خون آئے اور وہ حیض نہ ہو، مثال کے طور پر جسے نو سال کی عمر سے پہلے ہی خون آنا شروع ہو جائے، بہرحال حیض اور استحاضہ کے درمیان فرق کرنا اصل میں خون آنے کی عادت یا مدت یا نفس خون کی نشانیوں میں منحصر ہے.
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت حبیش والی حدیث میں خون حیض کی صفت بیان فرمائی ہے جس کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ''خون حیض کالا ہوتا ہے اور اس سے بو آتی ہے، جب ایسا ہو تو نماز چھوڑ دیا کرو، اور اگر اس کے علاوہ دوسرا کوئی خون ہو تو غسل کرو اور نماز پڑھو'' ۔ اور دار قطنی، بیہقی اور طبرانی نے حضرت ابو امامہ کی حدیث سے مرفوعا روایت کی: ''خون حیض سرخی مائل کالا ہوتا ہے ، اور استحاضہ کا خون زرد اور رقیق ہوتا ہے''.
اور ایک روایت میں آیا ہے: ''خون حیض نہیں ہوتا ہے مگر کالا گاڑھا اور سرخی مائل، اور استحاضہ کا خون رقیق اور زردی مائل ہوتا ہے''.
نيز نسائی اور ابو داود نے حضرت عائشہ سے مرفوعا روایت کی ہے: '' اگر حیض کا خون ہو تو وہ کالا ہوتا ہے جو معروف ہے تو نماز سے باز رہو، اگر اس کے علاوہ ہو تو وضوکرو وہ تو عرق (یعنی رگ کا خون )ہے''.
اورحضرت ابن عباس کہتے ہیں:''بات یہ ہے کہ جو امنڈتا خون دیکھے وہ نماز ترک کر دے''، اور کہا:'' قسم خدا کی وہ ایسا خون نہیں دیکھے گی جو حیض کے بعد آئے مگر یہ کہ گوشت کے پانی کی دھوون کی طرح".
امام نووی نے حیض کے خون کے رنگ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ کالا ہوتا ہے، یعنی وہ خون جس کی سرخی اتنی زیادہ ہوگئی ہو کہ سیاہی کی طرف مائل ہو گيا ہو، اور'' قانی'' ایسے سرخ کو کہتے ہیں جس کی سرخی شدید ہو اور حدیث میں کالے سے مراد مکمل کالا نہیں ہے ، بلکہ مراد اس سے ایسا کالا ہے جو بالکل سرخ ہو جس کی سرخی تہ بہ تہ ہونے کی وجہ سے وه کالا لگنے لگا ہو.
اور ائمہء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مستحاضہ عورت ہر وقتیہ نماز کے لئے تازہ وضو کرے گی، اس وضو سے فرض نماز ادا کرے گی اورجتنی چاہے نفل نماز ادا کرے گی ، اور بعض فقہائے کرام نے ایسی عورت کےلئے اس بات کی بھی اجازت دی ہے کہ اس وضو سےفرض قضا نمازیں بھی پڑھ سکتی ہیں،اسی طرح قرآن مجید کو ہاتھ لگا سکتی ہے ،اس كو اٹھا سکتی ہے، اور سجدہ شکر اور سجدہ تلاوت بھی کرسکتی ہے، الغرض اس كو نماز روزے جیسی وه تمام فرض عبادتیں ادا کرنی ہے جو ايک پاک انسان پر واجب ہوتيں ہیں۔
اس كے علاوه حضرت ابن جریر نے اجماع نقل کیا ہے کہ وہ قرآن مجید پڑھ سکتی ہے۔
اور حضرت ابراھیم نخعی نے روایت کی ہے کہ ایسی عورت قرآن مجید کو نہیں چھو سکتی، اور یہی حکم امام ابو حنیفہ کے مذہب کی فقہ میں بھی ہے، اور انہیں کے مذہب میں ہے کہ ایسی عورت کسی ایسی چیز کو بھی ہاتھ نہیں لگا سکتی جس میں قرآن مجید کی ایک مکمل آیت ہو۔
واضح رہے کہ مستحاضہ عورت کا وضو اس نماز کے وقت کے نکلتے ہی ٹوٹ جائے گا جس کےلئے اس نے وضو کیا تھا، اگر اس نے ظہر کی نماز کے وقت میں وضو کیا تھا تو اس وضو سے عصر نہیں پڑھ سکتی، بلکہ اس پر عصر کے وقت آنے پر تازہ وضو كرنا ضروری ہے، یہ ان وضو توڑنے والی چیزوں سے ہٹ کر ہے جو عموما نواقض وضو میں شمار ہوتى ہیں۔
ہمارا رجحان ان حضرات کی تائید میں ہے جو یہ کہتے ہیں کہ جب مستحاضہ عورت کسی نماز کے وقت میں وضو کرلے تو وہ باوضو کی طرح ہر عبادت انجام دے سکتی ہے، قرآن مجید کو پڑھ سکتی ہے، چھو سکتی ہے،اٹھا سکتی ہے اسی طرح نفل نماز ادا کرسکتی ہے ،سجدہ شکر نیز سجدہ تلاوت بھی کرسکتی ہے۔

باقى اللہ بزرگ وبرتر زیادہ بہتر جاننے والا ہے۔
 

Share this:

Related Fatwas