از راہ مہربانی قتل کے بارے میں دین ...

Egypt's Dar Al-Ifta

از راہ مہربانی قتل کے بارے میں دین حنیف کا حکم

Question

ت سال ٢٠٠٤ء مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو مندرجہ ذیل سوال پر مشتمل ہے:

یہ سوال ترس کھا کر کسی شخص کی جان لینے کے متعلق دین اسلام کے حکم کے بارے میں ہے ، یا یوں کہئے کہ ایک بیمار دردد کی شدت یا لاچار ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر سے اپنی زندگی ختم کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے ، یا ڈاکٹر خود یہ فیصلہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے کہ معذوری یا درد میں گھٹ گھٹ كر جیتا رہنے سے اس بیمار کے لیے مرنا ہی بہتر ہے؟

Answer

اللہ جل جلالہ تو اپنے بندوں پر سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے بلکہ وہ تو انسان پر اس کی ماں اور اس کے باپ اور سب لوگوں سے زیادہ مہربانی فرمانے والا ہے ، چنانچہ اللہ تعالی نے قرآن مجيد میں فرمایا ہے: ( وَإِلَـهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لاَّ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ) - اور تمہارا معبود خدائے واحد ہے کوئی معبود نہیں ہے اس کے سوا ، نہایت مہربان بہت رحم کرنے والاہے)[سورہ بقرہ: ١٦٣] ، اور اس معنی میں قرآن کریم میں بہت ساری آیتیں موجود ہیں ، نيز بشیر و نذیر صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث مبارکہ میں بھی اس مضمون پر واضح اور نمایاں بیان موجود ہے . در اصل یہ جسم جو اللہ تعالی نے انسان کو عطا فرمایا ہے انسان کی ملکیت نہیں ہے کہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے بلکہ یہ ایک امانت ہے جس کے بارے میں قیامت کے روز پیدا کرنے والے کے سامنے سوال و جواب ہوگا ، اللہ عز و جل نے قرآن کریم میں فرمایا ہے: ( وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ) - اور اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو اور نیکی اختیار کرو بے شک اللہ تعالی نیکو کاروں کو پسند فرماتا ہے - [سورہ البقرہ: ١٩٥] . وہ مریض جو ڈاکٹر سے کسی نہ کسی طریقے سے زندگی ختم کرنے کی درخواست کرتا ہے وہ تو ایسی حرکت سے - اللہ عز و جل کی پناہ ۔ خود کشی کرنے والوں کے زمرے میں شامل ہوتا ہے ، چنانچہ شیخین نے اپنی اپنی'' صحیح'' میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ''جس نے پہاڑ سے گرا کر اپنے آپ کو قتل کر دیا تو وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ابد تک گرتا رہے گا ، اور جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو قتل کر دیا تو اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا اور وہ اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوزخ کی آگ میں پیتا رہے گا ، اور جس نے اپنے آپ کو لوہے کے آلے سے قتل کیا تو اس کا لوہے کا آلہ اس کے ہاتھ میں ہوگا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ کی آگ میں اس کو اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گا'' ، اس حدیث کی روایت امام بخاری نے کی ہے . اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ''بے شک تم سے پہلے کی قوموں کے ایک آدمی کو ایک پھوڑا نکلا اور جب اس سے اس کو تکلیف ہوئی تو اس نے اپنے تیر کش سے ایک تیر نکالا اور اس(زخم) میں مار لیا تو اس کا خون نہ تھم سکا یہاں تک کہ وہ مر گیا ، تمہارے پروردگار نے فرمایا بے شک میں نے اس پر جنت حرام کر دی ہے'' ، اس حدیث کی روایت بخاری اور مسلم نے کی ہے . اس کے علاوہ اس بارے میں دیگر حدیثیں بھی آئی ہیں.
رہی بات ڈاکٹر کے از خود کسی مریض کی زندگی ختم کر دینے کی اورکسی مصلحت کے خاطر ایسے اقدام کرنے کی تو بے شک ایسا کرنا ۔ اللہ تعالی کی پناہ۔ نا حق جان لینے کے مفہوم میں شامل ہے ، چنانچہ پروردگار تبارک و تعالی فرماتا ہے:( وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا) - اور جو شخص کسی مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہے کہ ہمیشہ اس میں رہے گا ، اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کیا ہے - [سورہ نساء: ٩٣] ۔ اور ہمارے آقا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے: ''کسی بھی ایسے مسلمان شخص کا خون حلال نہیں ہے جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور بے شک میں اللہ کا رسول ہوں مگر تین چیزوں میں سے کسی ایک کی وجہ سے ، جان کے بدلے میں جان ، اور شادی شدہ زنا کار ، اور دین اسلام سے نکل جانے والا جماعت کو خیر باد کہہ دینے والا'' .
لہذا سوال میں مذکور قتل رحیم کے دونوں پہلو شرعی طور پر نا جائز ہيں ، اور بڑے گناہوں میں شامل ہیں ، جیسا کہ ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کئی حدیثوں میں آیا ہے ، اور ڈاکٹروں پر یہ جاننا لازمی ہے کہ خالق کی نا فرمانی کر کے کسی مخلوق کی اطاعت کرنا جائز نہیں ہے ، لہذا ڈاکٹر کو ایسی حرکت سے بچنا چاہئے ، چاہے مریض کتنی ہی منت و سماجت کیوں نہ کرے ، اور انہیں ہرگز ان کی درخواست پر نا حق کسی کی جان نہیں لینی چاہیے .

و اللہ سبحانہ و تعالی اعلم.
 

Share this:

Related Fatwas