آسان موت دینے (Euthanasia) کا حکم

Egypt's Dar Al-Ifta

آسان موت دینے (Euthanasia) کا حکم

Question

غیر مسلم ممالک کے بعض خطّوں میں شدید بیمار اور سخت تکلیف میں مبتلا مریض کی زندگی کو اس کی اپنی خواہش پر، یا اس کے سرپرست رشتہ دار کی درخواست پر، یا معالج ڈاکٹر کے فیصلے سے ختم کر دیا جاتا ہے، اور اس عمل کو (Euthanasia) یعنی ''آسان موت دینا''  کہا جاتا ہے ۔ اس عمل کا شرعی حکم کیا ہے؟

Answer

الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛ جو عمل بعض غیر مسلم ممالک میں "آسان موت دینا" کے نام سے جانا جاتا ہے—یعنی جب کوئی انسان بیماری اور درد کی شدت میں ہو اور اس کی زندگی ختم کر دی جائے—یہ شرعاً حرام ہے، بلکہ یہ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ہے، چاہے یہ کام خود مریض کرے، یا ڈاکٹر مریض یا اس کے گھر والوں کی درخواست پر کرے، یا وہ اپنے طور پر بطور ذمہ دار معالج ایسا فیصلہ کرے۔ اور جو انسان اس طرح کی مصیبت میں مبتلا ہو، اسے چاہیے کہ بے صبری سے بچے، اللہ کے فیصلے کو رضا اور صبر کے ساتھ قبول کرے، اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔

 

تفاصیل:

 

"آسان موت دینے" کا مفہوم

’’موتِ رحیم‘‘، ’’قتلِ رحیم‘‘ یا ’’آسان موت‘‘ سے مراد ایسے مریض کی زندگی ختم کرنا ہے جس کے شفایاب ہونے کی کوئی امید نہ ہو، خواہ وہ خود کوئی دوا لے کر اپنی جان ختم کرے یا کوئی دوسرا شخص اسے ایسی دوا دے جس سے اس کی موت واقع ہو جائے۔ اس عمل کا سہارا اُس وقت لیا جاتا ہے جب مریض کسی لاعلاج بیماری میں مبتلا ہو یا مسلسل شدید تکلیف میں ہو۔ یہ کام کبھی مریض خود کرتا ہے، کبھی کوئی دوسرا اس کی خواہش یا درخواست پر کرتا ہے، کبھی معالج ڈاکٹر مریض کی حالت دیکھ کر یہ فیصلہ کرتا ہے، اور کبھی مریض کے اہلِ خانہ یا دیکھ بھال کرنے والا اس کے لیے یہ مطالبہ کرتے ہیں۔

محض بیماری یا تکلیف کی وجہ سے مریض کا اپنی زندگی خود ختم کرنا
اگر مریض کسی بھی طریقے سے اپنی زندگی خود ختم کرتا ہے، تو شریعتِ اسلام میں اسے ’’خودکشی‘‘ یا ’’اپنے آپ کو قتل کرنا‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔

شریعتِ اسلام نے خودکشی یا کسی ایسے طریقے کو جس سے جسم تباہ ہو یا جان تلف ہو جائے، سختی سے حرام قرار دیا ہے۔ اسلام نے انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی جان اور جسم کی ہر اس چیز سے حفاظت کرے جو اسے نقصان پہنچا سکتی ہو یا ہلاکت کا سبب بن سکتی ہو، اور منع فرمایا ہے کہ آدمی خود اپنی جان لے یا اپنے آپ کو اذیت پہنچائے۔ شریعت یہ بھی واضح کرتی ہے کہ اگرچہ انسان اپنے بارے میں ایک حد تک آزاد ارادہ رکھتا ہے ، لیکن یہ آزادی اللہ تبارک وتعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے اندر ہی رہتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا﴾ ترجمہ:"اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر نہایت مہربان ہے" (النساء: 29)۔

اہلِ تفسیر کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس آیت کا مقصود یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو قتل نہ کریں، اور اس کے الفاظ اس بات کو بھی شامل ہیں کہ آدمی خود اپنی جان نہ لے۔ یہ بات امام قرطبی کی کتاب ’’الجامع لأحكام القرآن‘‘ (جلد 5، صفحات 156-157، دار الكتب المصرية) میں مذکور ہے۔

اور اللہ تعالیٰ نے ہلاکت میں پڑنے سے بھی منع فرمایا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ﴾ ترجمہ:“ اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت کی طرف مت ڈالو اور نیکی کرو، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔” (البقرۃ: 195)۔ ’’تَهلُکَہ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ کسی ایسے کام میں پڑ جانا جو انسان کو ہلاک کر دے؛ یہ لفظ ’’ہلک، یهلک، هلاکًا، هَلَكًا، تَهلُکَةً‘‘ سے ماخوذ ہے۔ اور صحیح بات یہ ہے کہ اعتبار لفظ کے عموم کا ہوتا ہے نہ کہ سببِ نزول کے خاص ہونے کا، لہٰذا دین یا دنیا میں جو بھی چیز ہلاکت شمار ہو، وہ اس آیت کے عموم میں داخل ہے۔ یہ بات علامہ شوکانی نے ’’فتح القدیر‘‘ (جلد 1، صفحہ 222، دار ابن کثیر) میں ذکر کی ہے۔

امام طبری نے ’’جامع البیان‘‘ (جلد 3، صفحہ 593، مؤسسۃ الرسالہ) میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی چیزوں میں اپنے آپ کو ڈالنے سے منع فرمایا ہے جو ہماری ہلاکت کا سبب بنیں، اور ہلاکت کے آگے خود کو بے بس چھوڑ دینے سے بھی روکا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے پہاڑ سے اپنے آپ کو گرا کر خودکشی کر لی وہ جہنم کی آگ میں ہو گا اور اس میں ہمیشہ پڑا رہے گا اور جس نے زہر پی کر خودکشی کر لی وہ زہر اس کے ساتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں وہ اسے اسی طرح ہمیشہ پیتا رہے گا اور جس نے لوہے کے کسی ہتھیار سے خودکشی کر لی تو اس کا ہتھیار اس کے ساتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے وہ اسے اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا۔ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کی ہے (لفظ بخاری کے ہیں)۔

 

حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جس شخص نے کسی چیز سے اپنی جان لی، اسے اسی چیز کے ذریعے جہنم کی آگ میں عذاب دیا جائے گا۔" یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

 

اور اسلامی شریعت نے انسان کی زندگی اور جسم کی حفاظت کو بنیادی ضرورت قرار دیا ہے، اور یہ حکم دیا ہے کہ انسان صرف اپنی جان اور جسم کی سلامتی رکھے، اس کی حفاظت کرے اور اس کی بہتری کی کوشش کرے۔

شریعتِ اسلام نے صرف انسان کے حقِ حیات اور اپنی جان کی حفاظت پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اسے حکم دیا ہے کہ وہ وہ ایسے اقدامات بھی کرے جو اس کی صحت اور زندگی کو محفوظ رکھیں اور نقصان یا خطرے سے بچائیں۔

حجة الاسلام ابو حامد الغزالی نے اپنی کتاب المستصفى (ص: 174، دار الكتب العلمية) میں فرمایا: "شریعت کا مقصد پانچ چیزوں کی حفاظت ہے: دین، جان، عقل، نسل اور مال۔ جو بھی عمل ان پانچ بنیادی اصولوں کی حفاظت کرے، وہ مصلحت ہے، اور جو ان اصولوں کو ضائع کرے، وہ مفسدہ ہے، اور اس سے بچاؤ مصلحت کے زمرے میں آتا ہے۔"

 

امام الشاطبی نے اپنی کتاب الموافقات (1/31، دار ابن عفان) میں فرمایا: "امت مسلمہ—بلکہ تمام ادیان—اس بات پر متفق ہیں کہ شریعت پانچ بنیادی ضروریات کی حفاظت کے لیے مقرر کی گئی ہے: دین، جان، نسل، مال اور عقل۔ اور امت کے نزدیک یہ اصول اتنے واضح ہیں کہ انہیں ضروری سمجھا جاتا ہے۔

لہٰذا محض بیماری یا درد کی وجہ سے کسی شخص کا اپنی جان ختم کرنا شرعاً حرام ہے، کیونکہ یہ اپنی جان کو قتل کرنے کے مترادف ہے، اور شریعت میں اس سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ بلکہ ایسا کرنے والا شہادت کے عظیم مرتبے سے بھی محروم رہ جاتا ہے۔ اس کی دلیل وہ واقعہ ہے جو سهل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (اپنے اصحاب کے ہمراہ احد یا خیبر کی لڑائی میں) مشرکین سے مڈبھیڑ ہوئی اور جنگ چھڑ گئی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس دن لڑائی سے فارغ ہو کر) اپنے پڑاؤ کی طرف واپس ہوئے اور مشرکین اپنے پڑاؤ کی طرف تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج کے ساتھ ایک شخص تھا، لڑائی لڑنے میں ان کا یہ حال تھا کہ مشرکین کا کوئی آدمی بھی اگر کسی طرف نظر آ جاتا تو اس کا پیچھا کر کے وہ شخص اپنی تلوار سے اسے قتل کر دیتا۔ سہل رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق کہا کہ آج جتنی سرگرمی کے ساتھ فلاں شخص لڑا ہے، ہم میں سے کوئی بھی شخص اس طرح نہ لڑ سکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ لیکن وہ شخص دوزخی ہے۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے (اپنے دل میں کہا اچھا میں اس کا پیچھا کروں گا (دیکھوں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیوں دوزخی فرمایا ہے) بیان کیا کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے دن لڑائی میں موجود رہا، جب کبھی وہ کھڑا ہو جاتا تو یہ بھی کھڑا ہو جاتا اور جب وہ تیز چلتا تو یہ بھی اس کے ساتھ تیز چلتا۔ بیان کیا کہ آخر وہ شخص زخمی ہو گیا زخم بڑا گہرا تھا۔ اس لیے اس نے چاہا کہ موت جلدی آ جائے اور اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو سینے کے مقابلہ میں کر لیا اور تلوار پر گر کر اپنی جان دے دی۔ اب وہ صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہوئی؟ انہوں نے بیان کیا کہ وہی شخص جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ وہ دوزخی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ آپ کا فرمان بڑا شاق گزرا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ تم سب لوگوں کی طرف سے میں اس کے متعلق تحقیق کرتا ہوں۔ چنانچہ میں اس کے پیچھے ہو لیا۔ اس کے بعد وہ شخص سخت زخمی ہوا اور چاہا کہ جلدی موت آ جائے۔ اس لیے اس نے اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو اپنے سینے کے مقابل کر لیا اور اس پر گر کر خود جان دے دی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی زندگی بھر بظاہر اہل جنت کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے اور ایک آدمی بظاہر اہل دوزخ کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے۔یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

ڈاکٹر کا مریض کی زندگی ختم کرنے کے اقدام کا حکم

جہاں تک بات ہے اُس صورت کی جب ڈاکٹر مریض کی زندگی ختم کرنے کی کوشش کرے، چاہے خود مریض کی درخواست پر یا اس کے اہلِ خانہ کی درخواست پر، یا ڈاکٹر نے بطور نگران فیصلہ کیا ہو، اور چاہے یہ مریض کی اجازت سے ہو یا بغیر اجازت، تو یہ ایک انسان کا ناحق قتل کرنا ہے۔ کیونکہ انسانی جان کی حفاظت اصل ہے، اور اس کی زندگی ختم کرنے کی جسارت کرنا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ﴾ ترجمہ: '' اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے مگر حق کے ساتھ۔" (الأنعام: 151)۔

 

امام الرازی نے اپنی کتاب مفاتیح الغیب (13/179، دار إحياء التراث العربي) میں فرمایا:

قتل کرنے میں اصل حرمت ہے، اور اس کا جواز صرف کسی واضح دلیل کے ذریعے ثابت ہوتا ہے۔"

بلکہ اللہ تعالیٰ نے نا حق کے قتل کو ایسا قرار دیا ہے جیسے کسی نے سب انسانوں کو قتل کر دیا ہو، فرمایا: ﴿مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا﴾ترجمہ:'' اس قتل کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا کہ جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اُس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو اس کی زندگانی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا''

امام فخرالدین رازی نے ’’مفاتیح الغیب‘‘ (11/344) میں فرمایا کہ ایک جان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر قرار دینے کا مقصد قتلِ ناحق کی حرمت اور اس کی سنگینی کو انتہائی درجے میں بیان کرنا ہے۔ یعنی جس طرح ہر شخص کے نزدیک پوری انسانیت کا قتل ایک نہایت بڑا اور ہولناک جرم ہے، اسی طرح ایک انسان کا قتل بھی نہایت عظیم اور قابلِ ہیبت جرم سمجھا جانا چاہیے۔

شریعت کی واضح نصوص یہ بتاتی ہیں کہ مسلمان اگر کسی بھی گناہ میں مبتلا ہو جائے تو دین میں اس کے لیے مخرج اور توبہ کا راستہ باقی رہتا ہے، سوائے ناحق قتل کے؛ کیونکہ یہ گناہوں میں نہایت سخت اور سنگین جرم ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مؤمن اپنے دین میں کشادگی میں رہتا ہے، جب تک وہ ناحق خون نہ بہائے۔'' اور اسی معنی کی وضاحت اس حدیث کے آخر میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس قول سے ہوتی ہے کہ: بے شک ان ہلاکت خیز کاموں میں سے جن میں پڑ کر انسان کے لیے نکلنے کی کوئی راہ نہیں ہوتی، ایک ناحق خون بہانا ہے۔'' ان دونوں حدیثوں کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’دنیا کا ختم ہو جانا اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل سے زیادہ ہلکا ہے۔‘‘ اس روایت کو ائمہ ترمذی، نسائی اور بیہقی نے سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔

مُلّا علی قاری نے ''مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح'' (6/2259، دار الفكر، بیروت) میں حدیث کی شرح میں فرمایا: ‘‘لَن يَزَالَ المُؤمِنُ فِي فُسحَةٍ’’ یعنی مؤمن اپنے دین کے معاملے میں وسعت اور اپنے رب کی رحمت کی امید میں رہتا ہے ‘‘مَا لَم يُصِب دَمًا حَرَامًا’’ جب تک وہ ناحق خون نہ بہائے۔ ابن الملک نے کہا: جب تک اس سے ناحق قتل کا ارتکاب نہ ہو تو اس کے لیے دین کے معاملات آسان رہتے ہیں اور وہ نیک اعمال کی توفیق پاتا ہے۔ طِیبی نے کہا: یعنی اگرچہ وہ بڑے گناہوں میں مبتلا ہو، جب تک قتل نہ کرے اُس کے لیے اللہ کی رحمت کی امید باقی رہتی ہے، لیکن جب وہ کسی کا ناحق خون بہا دے تو یہ دروازہ تنگ ہوجاتا ہے اور وہ اللہ کی رحمت سے ناامید لوگوں کے زمرے میں داخل ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے: ”جو شخص کسی مومن کے قتل میں آدھی بات کہہ کر بھی مددگار ہوا ہو، تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی پیشانی پر «آيس من رحمة الله» ”اللہ کی رحمت سے مایوس بندہ“ لکھا ہو گا“

اور خون کی حرمت کا معاملہ اس قدر عظیم ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے اسی کے بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنه سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ متفق علیہ۔

جب مریض پر بیماری اور تکلیف شدید ہوجائے تو اس پر کیا لازم ہوتا ہے

جن لوگوں کو کسی مصیبت میں مبتلا کیا جائے، ان کے لیے دارُالافتاء مصر کی نصیحت یہ ہے کہ وہ گھبراہٹ اور بےصبری کا مظاہرہ نہ کریں، بلکہ اللہ کے فیصلے کو راضی اور صابر دل کے ساتھ قبول کریں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ﴾ ترجمہ:"اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دو" (البقرہ: 155).

امام ابو حیّان الأندلسی نے "البحر المحيط في التفسير" (2/56، ط. دار الفكر) میں فرمایا: "جو شخص شرع کے مطابق شایستہ صبر کرتا ہے، وہ صبر کرنے والوں میں شامل ہوتا ہے۔"

حجة الإسلام ابو حامد الغزالی نے "إحياء علوم الدين" (4/72، ط. دار المعرفة) میں فرمایا: "البتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائش پر صبر کرنا صرف انبیاء کے بس میں ہے، کیونکہ یہ صدّیقین کا خاصہ ہے۔ یہ نفس کے لیے بہت مشکل ہے، اور اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا: ‘میں تجھ سے یقین مانگتا ہوں جس کے ذریعے تو دنیا کی مصیبتوں کو میرے لیے آسان کر دے۔’ اور آپ ﷺ نے فرمایا: ‘صبر کے ساتھ مشکل ختم ہونے کا انتظار کرنا عبادت ہے۔''۔

امام بدرالدین العینی نے ''عمدة القاری'' (جلد 8، صفحہ 96، دار إحياء التراث العربي) میں فرمایا کہ ربیعہ سے پوچھا گیا: صبر کی انتہا کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: یہ کہ جب کوئی مصیبت آئے تو اس دن تم پہلے کی طرح قائم رہو، یعنی پہلے کی حالت میں رہو۔ دل کی بےچینی، غم یا آنکھوں کے آنسو صبر کرنے والے کے مفہوم سے خارج نہیں کرتے، بشرطیکہ یہ حد سے تجاوز نہ کرے، کیونکہ انسان کی فطرت میں مصائب پر جزع کرنا شامل ہے۔

خلاصہ

اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ جو عمل بعض غیر مسلم ممالک میں "آسان موت دینا" کے نام سے جانا جاتا ہے—یعنی جب کوئی انسان بیماری اور درد کی شدت میں ہو اور اس کی زندگی ختم کر دی جائے—یہ شرعاً حرام ہے، بلکہ یہ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ہے، چاہے یہ کام خود مریض کرے، یا ڈاکٹر مریض یا اس کے گھر والوں کی درخواست پر کرے، یا وہ اپنے طور پر بطور ذمہ دار معالج ایسا فیصلہ کرے۔ اور جو انسان اس طرح کی مصیبت میں مبتلا ہو، اسے چاہیے کہ بے صبری سے بچے، اللہ کے فیصلے کو رضا اور صبر کے ساتھ قبول کرے، اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

Share this:

Related Fatwas