پڑی ہوئی چیز میں اٹھانے والے کا تصر...

Egypt's Dar Al-Ifta

پڑی ہوئی چیز میں اٹھانے والے کا تصرف

Question

سال ٢٠٠٨ء مندرج ڈاک پر ہم مطلع ہوئے جو حسب ذیل استفتاء پر مشتمل ہے:

گذشتہ سال ٢٠٠٦/٢٠٠٧ء ایک طالبہ کو''میت عافیہ'' نامی پرائمری اسکول کے صحن میں ایک سونے کی انگوٹھی ملی، اس نے اس انگوٹھی کو اسکول کے ہیڈ ماسٹر کے حوالے کر دیا،چنانچہ اعلان کے ایک سال بعد بھی اس انگوٹھی کے مالک کا پتہ نہیں چل سکا، اسکول نے ایک کمیٹی کی زیر نگرانی اس انگوٹھی کو فروخت کر دیا اور اس کی قیمت اسکول پر خرچ کرنے کی غرض سے اسکول کے کھاتے میں جمع کر دیا، جبکہ اس طالبہ کے سرپرست نے اس کی قیمت کا دسواں حصہ لینے سے انکار کر دیا اور پوری رقم کا خواستگار ہے، تو کیا پوری قیمت اس کا حق ہے؟ یا یہ کہ قیمت کو رفاہ عامہ اور طالب علموں کی بہبودی پر استعمال کےلئے اسکول کے کھاتے میں رہنے دیا جائے؟.

Answer

اللُقَطَۃ: اس پڑی ہوئی چیز کو کہتے ہیں جو اس کے مالک سے کھو گئی ہو اور دوسرے کو مل گئی ہو اور اس نے اسے اٹھا لیا ہو، واضح رہے کہ اس کے مالک سے اس چیز کا کھو جانا اس چیز کو اس کی ملکیت سے خارج نہیں کرتا ہے، بلکہ وہ اسی کی ملکیت میں باقی رہتی ہے، اور سماج حسب استطاعت اس چیز کو اس تک پہونچانے کا ذمہ دار ہے، چنانچہ اسلامی شریعت نے اسی مقصد کی آسانی کےلئے اس کو اٹھانے کی اجازت دی ہے، اور اسی مقصد کی خاطر پڑی ہوئی چیز کے اٹھانے کے متعلق ایسے ضوابط وضع کیے جو اس بات کے ضامن ہیں کہ اٹھانے والے سے اس کے اصل مالک کی تلاش میں کسی طرح بھی کسی قسم کی غفلت اور خیانت نہ ہو سکے، چنانچہ فقہائے کرام نے بیان کیا ہے کہ اٹھانے کی اجازت اٹھانے والے کی امانت پر منحصر ہے اور لکھا ہے کہ جس شخص کو خیانت میں پڑنے کا ڈر ہو اس کےلئے اس چیز کا اٹھانا جائز نہیں ہے، ورنہ وہ اس چیز کا غاصب - جبرا چھیننے والا - مانا جائیگا، اور انہوں نے یہ بھی تصریح فرما دی ہے کہ جس شخص نے پڑی ہوئی چیز کو اپنی ملکیت بنانے کی غرض سے اٹھا لیا وہ اس چیز کا ضامن ہے، کیونکہ اس نے اس چیز کو مالک کی اجازت کے بغیر اور شریعت کی اجازت کے بغیر اٹھایا ہے. اسی طرح انہوں نے اس کے اعلان کی صورتوں کو بھی واضح طور پر بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر اس کا اٹھانے والا فاسق ہو تو حاکم اس چیز کے اعلان اور اس کی حفاظت کےلئے ایک امانت دار شخص کو اس کے ساتھ کر دے. اس کے علاوہ دیگر متعلقہ احکامات بیان کیے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ پڑی ہوئی چیز کے اٹھانے کے متعلق شریعت کا مقصد یہ ہے کہ امانت کی حفاظت ہو اور پڑی ہوئی چیز اسکے مالک کے پاس پہونچ جائے.
فقہائے کرام کے ان نصوص کا مطالعہ کرنے والا جن میں پڑی ہوئی چیز کے اعلان کے بارے میں بحث ہے اس بات کو بخوبی محسوس کر لے گا کہ اس مسئلے کا عرف کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہے، ان فقہائے کرام نے لقطہ کے مفہوم کی تحدید کی، اس کے اعلان کے احکام واضح کئے نیز لقطہ کے اور لاوارث پڑی ہوئی دیگر چیزوں کے درمیان فرق کو بھی واضح کر دیا ہے جن کا اٹھانا جائز ہے، اسی طرح اعلان کی کیفیت، اس کی وہ مدت جس کے بعد اس چیز کے مالک کا نہ پایا جانا گمان پر غالب آجائے، ان جیسے اہم مسائل بیان کر دئے گئے ہیں. واضح رہے کہ حالات کے بدل جانے کی وجہ سے اعلان کا مفہوم بھی بدل گیا اور اس میں وسعت و آسانی پیدا ہو گئی ہے، چنانچہ اس زمانے میں عرف کا حال بالکل مختلف ہے اور لوگوں کے درمیان جو معروف و مشہور طریقہ کار چیزوں اور اشخاص کے ڈھونڈنے کےلئے رائج ہے وہ ہے پولیس تھانے، چونکہ جب چیزیں کھونے والے مالکان پولیس تھانوں میں رپورٹ کرنے کےلئے رخ کیا کرتے ہیں تو یہ بدیہی امر ہے کہ پانے والا بھی تب تک بری الذمہ نہیں ہو گا جب تک کہ اس کی خبر پولیس تھانے میں نہ دے.
چنانچہ مصری قانون ساز نے اس نکتے کو بھانپ لیا کہ لقطہ کے احکام کا فقہی نظم و نسق اور شرعی سیاست پر مبنی ہے جو زمانہ ، جگہ، احوال اور عرف کے بدلنے سے بدلتے رہتے ہيں، لہذا انہوں نے اس بارے میں ایسے قوانین وضع کیے ہیں جو زمانے کے حالات کے عین مطابق ہیں اور ان سے شریعت کے اغراض و مقاصد بھی بدرجہ اتم حاصل ہوتے ہیں، چنانچہ ان کی وجہ سے کھوئی ہوئی چیز کو اس کے مالک تک پہونچانے کی کاروائی میں خاطر خواہ آسانی پید ہو گئی ہے؛ مصری سول کوڈ کے دفعہ نمبر ٨٧٣ میں آیا ہے کہ بحری شکار، بری شکار، گری ہوئی چیزوں اور آثار قدیمہ کی چیزوں کے لئے خاص خاص قوانین لاگو ہونگے''. اھ. اور اس بارے میں ایسے قوانین صادر ہوئے جن میں اس جگہ کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں پڑی ہوئی چیزوں کو سپرد کیا جانا چاہئے، اور وہ پولیس تھانے ہیں، اسی طرح وہ مدت بیان کی گئی ہے جس کے دوران یہ پڑی ہوئی چیزیں محفوظ رکھی جائیں گی، اور اس کے اختتام پر ان چیزوں میں تصرف کیا جائے گا، اسی طرح کب تک اس کی قیمت کو اس کے مالک کے لئے محفوظ رکھا جائے گا، اور اگر ان پڑی ہوئی چیزوں کے مالک ان کو لینے کےلئے نہ آئے تو انکی قیمت کب اور کس طرح ملک کے کھاتے میں شامل ہو گی ،اس قسم کے سارے مسائل بیان کئے گئے ہیں.
اس بارے میں جو قوانین لاگو ہیں وہ یہ ہیں کہ ١٨ مئی سال ١٨٩٨ء کو حکم عالی صادر ہوا، اس میں فیصلہ ہوا ہے کہ جو شخص کوئی چیز یا گم شدہ جانور پا لے اور وہ فی الفور وہ چیز اس کے مالک کو نہ لوٹا سکے تو شہروں میں وہ تین دن کے اندر اندر اس کو قریبی پولیس تھانے کے سپرد کر دے یا اس کے بارے میں رپورٹ کر دے،، اور گاؤں میں آٹھ دن کے اندر اندر مکھیا صاحبان کے سپرد کر دے، اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اسے جرمانہ دینا پڑے گا، اور اگر اس نے اس کو ملکیت بنانے کی غرض سے چھپا کے رکھا تو وہ چور تصور کیا جائیگا، - یہاں ہم اس بات کی تنبیہ کرتے چلیں کہ یہ اس شرعی مفہوم کا چور نہیں ہے جس میں شرعی طور پر ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے -، لیکن اگر وہ سپرد کر دے تو وہ اس چیز کی قیمت کے دسویں فیصد کے انعام کا مستحق ہو گا، اور اگر اس چیز کے مالک نے اس چیز کا مطالبہ نہ کیا تو وہ چیز سپردگی کے وقت سے ایک سال کے دوران انتظامیہ کے ذریعے نیلام کی جائیگی ، یا جانور دس دنوں کے دوران نیلام کیا جائیگا، اور اگر پڑی ہوئی چیز کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو یہ مدت کم بھی کی جا سکتی ہے، اور پڑی ہوئی چیز کے اٹھانے والے کو اس کی قیمت کا دسواں حصہ دیا جائیگا، اور انتظامیہ باقی قیمت کو تین سال تک مالک کےلئے محفوظ رکھے گی اور اگر مالک اس مدت کے دوران چیز لینے نہ آئے تو وہ قیمت ملک کے خزانے میں منتقل کی جائیگی.
اسی طرح تعزیرات مصر کے ترمیم شدہ دفعہ٣٢١ میں آیا ہے کہ: ''ہر وہ شخص جو کوئی پڑی ہوئی چیز یا گمشدہ جانور پا لے اور وہ اس کو ممکن ہونے کے باوجود بھی تین دن کے اندر اندر مالک کو نہ لوٹا دے یا پولیس تھانے یا انتظامیہ کے سپرد نہ کر دے تو اسے زیادہ سے زیادہ دو سال قید با مشقت کی سزا دی جا سکتی ہے، اگر اس نے ملکیت بنانے کی نیت سے وہ چیز روکے رکھی ہو تو، لیکن اگر مذکورہ مدت ختم ہونے کے بعد اس نے بغیر ملکیت بنانے کی نیت سے وہ چیز روکے رکھی تو اسے زیادہ سے زیادہ ایک سو پونڈ جرمانہ دینا پڑ سکتا ہے'' اھ.
شریعت میں یہ مسئلہ طے شد ہ ہے کہ حاکم کا حکم جاری کرنا اختلاف کو ختم کر دیتا ہے، اور یہ جان لینا چاہئے کہ حاکم مباح کو مقید کرنے کا مجاز ہوتا ہے، اور وہ مجتہدین کی آراء میں سے کسی بھی رائے کے اختیار کا مختار ہوتا ہے اور عام نظام کی سالمیت اور حقوق کی حفاظت کے پیش نظر اس کے حکم پر عمل کرنا واجب ہے.
اس بنا پر اور سوال کے پیش نظر اس طالبہ نے جو سونے کی انگوٹھی اسکول کی انتظامیہ کے سپرد کي ہے وہ بالكل صحیح تصرف ہے، لیکن اس طالبہ کے سرپرست کا اس انگوٹھی میں اور اس کی قیمت میں کوئی حق نہیں ہے، کیونکہ اس کی بیٹی نے وہ چیز ملکیت یا رپورٹ دینے کی نیت سے نہیں اٹھائی تھی، لیکن اسکول کی انتظامیہ نے اس انگوٹھی کو بیچنے کا بے جا تصرف کیا ہے، کیونکہ بیچنا عرف میں پڑی ہوئی چیز کے کام پر مامور انتظامیہ کے پاس صحیح رپورٹ کے بعد ہوتا ہے اور وہ انتظامیہ یہاں پر پولیس تھانہ ہے، اس بارے میں صحیح تصرف یہ تھا کہ اس اٹھائی ہوئی چیز کے بارے میں اسکول کی انتظامیہ پولیس تھانے میں رپورٹ لکھواتی، چنانچہ عام طور پر ہوتا یہی ہے کہ جس کی کوئی چیز گم ہو جاتی ہے وہ اس بارے میں پولیس تھانے میں ہی رپورٹ کرواتے ہیں، تو اگر پانے والے تھانوں کا رخ کرتے تو پڑی ہوئی چیزوں کے مالکان میں چیزیں پالینے کی شرح بڑھ جاتی، اس لئے چیز اٹھانے والے پر لازمی ہے کہ وہ چیز تھانے کے حوالے کرے، اور ایسا کرنے سے اسکول کی انتظامیہ عند اللہ اس اٹھائی ہوئی چیز کی ذمہ داری سے بری ہو جائیگی، انتظامیہ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اس چیز میں تصرف کرے جس کی وہ مالک نہیں ہے، اور نہ ہی یہ حق حاصل ہے کہ اس میں سے اٹھانے والے کو یا کسی دوسرے کو کچھ دے دے، بلکہ یہ تصرف صرف اس انتظامیہ کو حاصل ہے جو اس امر پر متعین کی گئی ہے.

باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.
 

Share this:

Related Fatwas