کی صحت کا کیا حکم ہے

Egypt's Dar Al-Ifta

کی صحت کا کیا حکم ہے

Question

حديث : '' الجنة تحت أقدام الأمهات '' کی صحت کا کیا حکم ہے؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد: والدین کے ساتھ بھلائی کرنا فرض ہے اللہ تعالی نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنی عبادت اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر ایک ساتھ ملا کر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے : '' اور حکم فرمایا آپ کے رب نے کہ نہ عبادت کرو بجز اس کے اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر بڑھاپے کو پہنچ جائے تیری زندگی میں ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تو انہیں "اف " تک مت کہو اور انہیں مت جھڑکو اور جب ان سے بات کرو تو بڑی تعظیم سے بات کرو اور جھکا دو ان کے لئے تواضع اور انکسار کے پر رحمت (ومحبت) سے اور عرض کرو اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحم فرما جس طرح انہوں نے (بڑی محبت وپیار سے) مجھے پالا تھا جب میں بچہ تھا۔'' ([1])

رسول اللہ ﷺ نے والدین سے نیک سلوک کرنے کی بہت زیادہ ترغیب دی ہے اور والدین کو عاق کرنا گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔

حدیث '' الجنة تحت اقدام الامهات '' کی صحت کا حکم: ابن عدی نے ''الکامل'' میں موسی بن محمد بن عطاء کی سند  سے روایت کیا ہے ، آپ کہتے ہیں کہ ہم سے ابو ملیح نے بیان کیا ۔ ان سے میمون نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما سے مروی ہے آپ رضی اللہ تعالی عنھما نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' الجنة تحت اقدام الامهات من شئن أدخلن و من شئن أخرجن '' جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے جسے چاہیں داخل کر دیں اور جسے چاہیں نکال دیں۔

ابن عدی کہتے ہیں کہ موسی بن محمد المقدسی کی حدیث منکر ہے ۔

حدیث کا پہلا حصہ '' الجنة تحت أقدام الأمهات ''سیدنا أنس رضی اللہ تعالی والی حدیث میں بھی آیا ہے جسے ابو بکر الشافعی نے '' الرباعیات '' اور ابو شیخ نے '' الفوائد '' میں اور قضائی اور دولابی نے منصور بن مہاجر سے انہوں نے ابو نظر ادبار سے انہوں نے حضرت انس سے مرفوعا اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ اس حدیث کو اسی سند سے خطیب نے

 '' الجامع لأخلاق الراوی '' میں اور امام سیوطی نے '' الجامع الصغیر '' میں روایت کیاہے۔

امام مناوی '' فیض القدیر " فرماتے ہیں کہ إبن طاہر نے نے کہا ہےکہ  منصور اور ابو نظر معروف نہیں ہیں اور یہ حدیث منکر ہے۔ ([2])

اگرچہ ان الفاظ کے ساتھ یہ حدیث ضعیف ہے مگر اسی معنی کے ساتھ صحیح حدیث بھی وارد ہوئی ہے۔ امام ابن ماجہ اور امام نسائی نے روایت کیا ہے اور امام احمد اور امام طبرانی نے " المعجم الکبیر " میں  "سند حسن "  کےساتھ روایت کیا ہے اور امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیاہے امام ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے اور امام منذری نے بھی اس کا اقرار کیا ہے۔ معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ میں نے جنگ لڑنے کا ارادہ کیا ہے اور آپ ﷺ سے مشورہ لینے آیا ہوں۔

آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تیری ماں ہے ؟
عرض کیا : جی ہاں۔

تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسی کے ساتھ رہو کیونکہ جنت اسی کے قدموں کے نیچے ہے۔

اور ابن ماجہ کی روایت یہ ہے: معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ۔  آپ فرماتے ہیں : میں بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ آپ کے ساتھ مل کر میں جہاد کرنے چاہتا ہوں اور اس سے میرا مطلوب رضاء الٰہی اور دار آخرت ہے۔

آپ ﷺ نے فرمایا :تیرا بھلا ہو، کیا تیری ماں زندہ ہے؟

عرض کیا : جی ہاں یا رسول اللہ ﷺ ۔

تو آپ ﷺ نے فرمایا : تو واپس چلے جاؤ اور اس سے نیک سلوک کرو۔

پھر میں دوسری طرف سے آیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ آپ کے ساتھ مل کر جہاد کرنے چاہتا ہوں اور اس سے میرا مطلوب رضا الٰہی اور دار آخرت ہے۔

آپ ﷺ نے فرمایا :تیرا بھلا ہو، کیا تیری ماں زندہ ہے؟

عرض کیا : جی ہاں یا رسول اللہ ﷺ ۔

تو آپ ﷺ نے فرمایا : تو واپس چلے جاؤ اور اس سے نیک سلوک کرو۔

پھر میں آپ ﷺ کے سامنے سے آیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ آپ کے ساتھ مل کر جہاد کرنے چاہتا ہوں اور اس سے میرا مطلوب رضا الٰہی اور دار آخرت ہے۔

تو آپ ﷺ نے فرمایا : تیرا بھلا ہو، اس کے پاؤں کو پکڑے رکھو کیونکہ جنت وہیں ہے۔

امام مناوی فرماتے ہیں : اس کا معنی یہ ہے کہ ماؤں کے ساتھ تواضع کرنا اور خدمت میں ان کی اطاعت کرنا اور خلاف شرع کے علاوہ کسی چیزمیں ان کی مخالفت نہ کرنا جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے۔([3])

اس بنا پر مذکورہ حدیث کا معنی صحیح ہے اور اس کی اسناد ضعیف ہیں، اس کے ذریعے سے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی اطاعت کی ترغیب دینا جائز ہے۔

 
واللہ تعالی اعلم بالصواب ۔
 
 
 
 

 


[1]سورۃ الاسراء 23،24

[2]فیض القدیر شرح جامع الصغیر 3/361 ط۔ مکتبہ تجاریہ کبری

[3][3]فیض القدیر شرح جامع الصغیر 3/361 ط۔ مکتبہ تجاریہ کبری 

Share this:

Related Fatwas