اسلامی فقہ میں"سد الذرائع" کی دلیل

Egypt's Dar Al-Ifta

اسلامی فقہ میں"سد الذرائع" کی دلیل

Question

 ہم بعض لوگوں سے سنتے ہیں کہ کسی کسی مسئلہ کی حرمت کی دلیل "سد الذرائع" ہوتی ہے۔ تو "سد الذرائع" کیا ہے؟ اور کیا یہ شرعی ادلہ میں سے ایک دلیل ہے؟

Answer

 الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ "سد الذرائع" دو کلموں سے عبارت ہے، جن میں سے ایک کلمہ دوسرے کی طرف مضاف ہے، پہلا کلمہ ''سد'' ہے، پس سین اور دال ایک ایسی اصل ہے جو کسی چیز کو بھر دینے اور اسے بند کر دینے پر دلالت کرتی ہے؛ جیسے آپ کہتے ہیں: (سدَدت الثُّلمة سدًّا) میں نے شگاف کو بھر دیا یعنی بند کر دیا ہے۔ اور دو چیزوں کے درمیان حائل ہونے والی ہر رکاوٹ کو بھی (سد) کہتے ہیں۔ اور اسی سے ''سدید''، اور ''ذو سداد'' ہے یعنی استقامت والا؛ گویا اس میں کوئی کمی کجی نہیں ہے۔
"اور ''ذرع'' کے متعلق امامِ ابن فارس رحمہ اللہ اپنی کتاب مقاييس اللغة" (2/ 350 فصل الذال من باب العين، و3/ 66 فصل السين من باب الدال) میں فرماتے ہیں: ذال، راء اور عین ایک ایسی اصل ہے جو پھیل جانے اور آگے کی طرف بڑھنے پر دلالت کرتی ہے اور پھر اس اصل کی فروعات اپنی اسی اصل کی طرف لوٹتی ہیں۔
اور ''الذريعة'' وسیلہ کو کہتے ہیں، جیسے کہ کہا جاتا ہے [تذرع فلان بذريعةٍ أي توسل] یعنی: فلان نے کوئی ذریعہ بنایا یعنی وسیلہ پکڑا۔ اور ذریعہ کی جمع ذرائع ہے۔ اور ذریعہ دریئہ کی مثل ہے اور دریئہ اس اوںٹ کو کہتے ہیں جس کے ذریعے شکار کو دھوکا دیا جاتا ہے؛ کیونکہ شکاری اس اونٹ کے پہلو میں چلتا رہتا ہے اور جس وجہ سے وہ شکار سے چھپا رہتا ہے اور جب اس کیلئے ممکن ہوتا ہے تو شکار کو نشانہ بنا لیتا ہے، اور اسی طرح ذریعہ بھی کسی شئی کے لئے سبب بنتا ہے جس کی اصل یہی اونٹ ہے؛ کہا جاتا ہے فلاں تیرے تک پہنچنے کیلئے ذریعہ بنا یعنی سبب اور وسیلہ بنا۔ دیکھیے: "لسان العرب" (8/ 93، مادة: ذ ر ع، ط. دار صادر).
سابقہ تفصیل سے واضح ہو گیا کہ عربی میں ''سد'' کسی چیز تک پہنچانے والے راستے کو پختگی کے ساتھ بند کر دینے کو کہتے ہیں۔
سد ذرائع کی اصطلاحی تعریف: امام الباجی رحمہ اللہ اپنی کتاب "إحكام الفصول" (2/ 695-696، ط. دار الغرب) میں فرماتے ہیں: یہ ایسا مسئلہ ہے جو ظاہرا تو مباح ہوتا ہے لیکن یہ کسی فعلِ محظور کا سبب بنتا ہے۔
امام ابنِ عربی رحمہ اللہ اپنی کتاب "أحكام القرآن" (2/ 265، ط. دار الكتب العلمية) میں فرماتے ہیں: یہ ہر وہ عقد ہے جو ظاہری طور پر جائز ہوتا ہے لیکن کسی فعلِ محظور کا یا تو سبب بنتا ہے یا اس کے ذریعے سے کسی فعلِ محظور تک پہنچنا ممکن ہو جاتا ہے۔
اس مسئلے کا حکم یہ ہے کہ اشیاء میں اصل اباحت ہوتی ہے، اور جس چیز میں فساد نادر ہو اور اس سے عدم ممانعت پر اجماعِ امت ہو اس میں سد الذرائع پرعمل کرنا احتیاطِ مذموم ہے، جیسا کہ امام قرافی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے؛ چونکہ اس سے پیدا ہونے والا نقصان نادر ہوتا ہے اور نادر چیز پر کوئی حکم نہیں لگتا اور یہ بات فقہ میں امر مسلم ہے، اور اس لئے بھی کہ فعل یہاں پر فساد سے خالی ہوتا ہے اور شارع نے امرِ نادر کا اعتبار نہیں کیا بلکہ غلبہ مصلحت کا ہی اعتبار کیا ہے؛ لہذ جس ''ذریعہ'' کا فساد نادر ہو وہ اپنی اصلِ اباحت پر ہی باقی رہے گا اور جس نے اسے اختیار کرنے سے منع کیا ہے اس کی بات کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا؛ جس طرح گرم ممالک میں دھاتی برتنوں میں دھوپ سے گرم ہو جانے والا پانی، پس جب اس پانی کے علاوہ پانی موجود ہو تو اس پانی کا استعمال اس وقت مکروہ ہو گا تاکہ اس کام سے بھی بچا جا سکتا جس کا ضرر نادر ہوتا ہے، اور اگر اس کے علاوہ پانی موجود نہ ہو تو اسی پانی کا استعمال متعین ہو جاتا ہے؛ کیونکہ اس کا صحیح سلامت ہونا نقصان دہ ہونے پر غالب ہوتا ہے۔ فسادِ نادر کے وقوع کی وجہ سے غالب مصالح کو معطل کرنا جائز نہیں ہے، اور اس کی مزید مثالیں یہ ہیں: شراب کے خوف سے انگور کاشت کرنے سے منع کرنا اور زنا کے خوف سے گھروں میں پڑوسگی سے منع کرنا۔ یہ سب کے سب ایسے ذرائع اور ایسے وسائل ہیں جن سے نہ تو رُکا جائے گا اور نہ ہی انہیں چوڑا جائے گا۔ دیکھیے: "قواعد الأحكام في مصالح الأنام" لسلطان العلماء العز بن عبد السلام (1/ 100، ط دار الكتب العلمية)، و"الفروق" للإمام القرافي (2/ 32، ط. عالم الكتب).
اسی طرح ان سدِ ذرائع میں احتیاط پر عمل صرف اسی صورت میں کیا جائے گا جب یہ اکثر اوقات فساد کا سبب بنتے ہوں لیکن جب غالبًا یا نادرًا بنتے ہوں تو احتیاط پر عمل نہیں کیا جائے گا؛ اس لئے کہ بنیادی اصول یہ ہے کہ اشیاء اذنِ صحیح یعنی اباحت پر محمول ہیں، جیسا کہ شافعی وغیرہ کا مذہب ہے، اور اس لئے بھی کہ فساد کے واقع ہونے کا یقین اور ظن دونوں موجود نہیں ہیں؛ کیونکہ اس کے واقع ہونے اور نہ ہونے کا صرف احتمال موجود ہے، اور دونوں جانبوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کیلئے کوئی قرینہ بھی موجود نہیں ہے، اور فساد اور نقصان دینے کا امکانِ قصد نفسِ قصد کے قائم مقام نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس کا تقاضا کرتا ہے؛ کیونکہ غفلت وغیرہ جیسی چیزیں فساد کے موجود ہونے یا موجود نہ ہونے سے عارض آ جاتی ہیں۔ دیکھیے: "الموافقات" للشاطبي (2/ 361، ط. دار المعرفة).
اس کی دلیل یہ ہے کہ تمام چیزوں کے متعلق بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ مباح ہیں، لہٰذا کسی قوی دلیل کے بغیر کوئی چیز حرام نہیں ہو سکتی۔ حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ اللهَ فَرَضَ فَرَائِضَ فَلَا تُضَيِّعُوهَا، وَحَدَّ حُدُودًا فَلَا تَعْتَدُوهَا، وَحَرَّمَ أَشْيَاءَ فَلَا تَنْتَهِكُوهَا، وَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ رَحْمَةً لَكُمْ مِنْ غَيْرِ نِسْيَانٍ فَلَا تَبْحَثُوا عَنْهَا. [اسے امام دار قطنی وغيره رحمھم اللہ نے روایت کیا ہے، اور امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے: یہ حدیث حسن ہے.[ ترجمہ: اللہ تعالی نےکچھ چیزیں فرض کی ہیں انہیں ضائع مت کرو اور کچھ حدود وضع کی ہیں ان سے تجاوز مت کرو اور کچھ چیزیں حرام کی ہیں ان کے قریب مت مت جاو اور کچھ چیزوں سے خاموشی اختیار کی ہے تم پر رحمت کرتے ہوئے نہ کہ بھول کر، ان کے متعلق سوال مت کیا کرو۔
حافظ ابن رجب اپنی کتاب "جامع العلوم والحكم" (2/ 170، ط. مؤسسة الرسالة) میں فرماتے ہیں: جن چیزوں سے اللہ تعالی نے سکوت اختیار فرمایا ان کے بارے میں آپ ﷺ کے فرمان: «رَحْمَةً مِنْ غَيْرِ نِسْيَانٍ» کا مطلب ہے: وہ صرف اپنے بندوں کے لیے رحمت اور ان پر احسان کے طور پر ان اشیاء کا ذکر کرنے سے خاموش رہا، یعنی اس نے ان چیزوں کو حرام ہی نہیں کیا کہ ان کے کرنے پر لوگوں کو سزا دے اور نہ ہی انہیں واجب نہیں کیا کہ ترک کرنے پر سزا دے، بلکہ انہیں زائد بنا دیا کہ اگر لوگوں نے ان چیزوں کو اختیار کیا تو ان پر کوئی حرج نہ ہو اور اگر اختیار نہ کیا تو بھی کوئی گناہ نہ ہو۔ سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی حدیث میں ہے: پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: ﴿وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا﴾ [مريم: 64]. ترجمہ: تیرا رب بھولنے والا نہیں۔ اسی طرح اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا فرمان ہے: ﴿لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى﴾ [طه: 52]. ترجمہ:میرا رب نہ غلطی کرتا ہے اور نہ ہی بھولتا ہے۔ اور آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےفرمان: «فَلَا تَبْحَثُوا عَنْهَا» (ان چیزوں کے بارے میں سوال مت کیا کرو) میں یہ احتمال ہے کہ بحث کی یہ ممانعت نبی اکرم آ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے ساتھ خاص ہو کیونکہ جس چیز کا ذکر نہیں کیا گیا تھا اس زمانے میں اس کے بارے میں بہت زیادہ تحقیق اور سوالات اسے واجب کرنے یا حرام کرنے کی وجہ بن سکتے تھے۔ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث اسی پر دلالت کرتی ہے۔ اور اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ یہ نہی عام ہو، اور سلمان سے مروی آپ ﷺ کی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے؛ کیونکہ جس چیز کا حکم واجبات اور محرمات میں مذکور نہ ہو اس کے بارے میں زیادہ تحقیق کرنے اور سوالات کرنے سے کبھی ان کے ایجاب یا تحریم کا اعتقاد ثابت ہو جاتا ہے؛ کیونکہ یہ چیزیں بھی بعض واجبات یا محرمات کے مشابہ ہوتی ہیں، پس اس میں عافیت کو قبول کرنے اور اس بارے میں تحقیق اور سوال کو ترک کرنے میں خیر اور بھلائی ہے اور یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں داخل ہے: «هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ» یعنی: متنطعون ہلاک ہو گئے۔ یہ بات آپ ﷺ نے تین بار دہرائی. [اسے امام مسلم نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنھما کی حدیث سے مرفوعا روایت کیا ہے]، اور''الْمُتَنَطِّعُ'' لا یعنی چیزوں کے بارے بہت گہرائی سے تحقیق کرنے والے شخص کو کہتے ہیں۔ اس سے وہ لوگ بھی دلیل پکڑ سکتے ہیں جو ظاہریہ کی طرح لفظ کے صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں اور معانی اور قیاس کی نفی کرتے ہیں۔
اور اس بارے میں تحقیق - وَاللهُ أَعْلَمُ - یہ ہے کہ وہ چیز جس کے بارے میں کوئی خاص یا عام نص موجود نہ ہو اس کے متعلق بحث وتحقیق کرنے کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم: یہ تلاش کر رہا ہو مسکوت عنہ چیز نصوصِ صحیحہ کی دلالات یعنی فحوی الکلام، مفہوم اور صحیح ظاہر قیاس میں داخل ہے کہ نہیں؛ یہ تحقیق صحیح ہے اور یہ ان کاموں میں سے ہے جو شرعی احکام کو جاننے کے لیے مجتہدین کو کرنے چاہیں۔
دوسری قسم: غور وفکر کرنے والا بہت باریک بینی سے متماثل چیزوں کے درمیان فروقِ مستبعدہ میں غور وفکر کر رہا ہو اور دو متماثل چیزوں کے درمیان کسی ایسی وجہ سے تفریق کر رہا جس کا کوئی شرعی اثر نہ ہو، جبکہ ایسے اوصاف بھی موجود ہوں جو دونوں کو ایک حکم میں جمع کرنے کا تقاضا کرتے ہوں۔ یا وہ دو متفرق چیزوں کو صرف ان عارضی اوصاف کی وجہ سے جمع کر رہا ہو جو نہ تو مناسب ہوں اور نہ ہی شریعتِ مطہرہ میں کوئی دلیل ان کی تاثیر پر دلالت کر رہی ہو، لہذا ایسی تحقیق اور غور وفکر رضا الٰہی سے خالی اور غیر محمود ہوتی ہے، اس کے باوجود کہ فقہاء کے کچھ گروہ اس کے درپے ہوئے ہیں۔ قابلِ تعریف تحقیق وہ ہے جو صحابہ کرام مثلا ابن عباس وغیرہ رضی اللہ تعالی عنھم اور ان کے بعد فضیلت والی صدیوں میں ہونے والی تحقیق کے موافق ہو، شاید ابنِ مسعود رضی اللہ تعالی عنھما کی اپنے ارشاد سے یہی مراد ہو آپ نے فرمایا: "إِيَّاكُمْ وَالتَّنَطُّعَ، إِيَّاكُمْ وَالتَّعَمُّقَ، وَعَلَيْكُمْ بِالْعَتِيقِ" (لایعنی چیزوں کے بارے میں تحقیق کرنے سے بچو، اور لایعنی چیزوں کے بارے میں گہری سوچ سے اجتناب کرو، اور امرِ اول کو لازم پکڑو) یعنی جس پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم تھے۔
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ "الإحكام في أصول الأحكام" (6/ 3، ط. دار الآفاق الجديدة) میں فرماتے ہیں: مشتبہات یقینا حرام نہیں ہیں، اور جب یہ ان محرمات میں سے نہیں ہیں جن کی تفصیل بیان کر دی گئی ہے تو یہ چیزیں اللہ تعالى کے اس فرمان کی وجہ سے حکمِ حلال پر قائم ہیں: ﴿وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ وَإِنَّ كَثِيرًا لَيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ﴾ [الأنعام: 119] ترجمہ: ''کیا وجہ ہے کہ تم وہ چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو حالانکہ وہ واضح کر چکا ہے جو کچھ اس نے تم پر حرام کیا ہے ہاں مگر وہ چیز جس کی طرف تم مجبور ہو جاؤ، اور بہت سے لوگ بہکاتے ہیں اپنے خیالات کی بناء پر بے علمی میں، بے شک تیرا رب حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے''۔ پس جس چیز کی تفصیل بیان نہیں کی گئی وہ چیز اللہ تعالى کے اس فرمان کی وجہ سے حلال ہے: ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾ [البقرة: 29] ترجمہ: ''اللہ وہ ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لیے پیدا کیا ہے، پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو انہیں سات آسمان بنایا، اور وہ ہر چیز جانتا ہے''۔ اور نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے بھی حلال ہے: «أَعظَمُ النَّاسِ جُرمًا فِي الإِسْلَامِ مَن سَألَ عَن شَيءٍ لَم يحَرّمْه فحَرم مِن أجْلِ مَسْألتِهِ»] اسلام کے اندر لوگوں میں سب سے بڑا مجرم وہ ہے جس نے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جسے اللہ تعالی نے حرام نہیں کیا تھا تو اس کے پوچھنے کی وجہ سے وہ چیز حرام کر دی گئی اهـ.

سد ذریعہ کے قائلیں میں سے سب سے مشہور مالکی مذہب اور حنبلی مذہب ہے؛ امام حطاب رحمہ اللہ "مواهب الجليل" (1/ 26، ط. دار الفكر) میں امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب کے بارے میں فرماتے ہیں: آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا مذہب سدِ ذرائع اور شبہات سے اجتناب کرنے پر مبنی ہے، یہ مذہب سب مذاہب سے زیادہ شبہات سے دور ہے۔
حنبلی مذہب کے بارے میں امام ابن نجار رحمہ اللہ "مختصر التحرير شرح الكوكب المنير" (4/ 434، ط. مكتبة العبيكان) میں فرماتے ہیں: سد ذرائع کا مطلب وہ افعال یا اقوال ہیں جو ظاہرا مباح ہوں لیکن وہ کسی حرام چیز تک رسائی کا ذریعہ بن رہے ہوں۔ ان سے روکنے کا معنی ہے: ان کے حرام ہونے کی وجہ سے ان کے کرنے سے منع کر دینا۔
امام زركشي رحمہ اللہ "البحر المحيط" للزركشي (8/ 90، ط. دار الكتبي) میں فرماتے ہیں: امام قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: سدِ ذرائع امام مالک اور ان کے ساتھیوں کا مذہب ہے اور اکثر لوگوں نے اصل پر عمل کرتے ہوئے آپ سے اختلاف کیا ہے اور اپنے اکثر فروعی مسائل میں انہوں نے اس پر تفصیل کے ساتھ عمل کیا ہے، پھر موضع اختلاف بیان کیا اور فرمایا: جان لو کہ جو چیز حرام کام میں پڑنے کا سبب بنتی ہے یا تو قطعی طور پر اس سے حرام میں پڑنا لازم آتا ہے یا لازم نہیں آتا، پہلی قسم اس باب میں داخل نہیں بلکہ [ما لا خلاص من الحرام إلا باجتنابه، ففعله حرام] کے باب میں سے ہے یعنی جس چیز سے اجتناب کیے بغیر حرام سے نجات ممکن نہ ہو تو اس کا کرنا حرام ہوتا ہے؛ اس لئے کہ جس چیز کے بغیر واجب مکمل نہ ہو وہ بھی واجب ہوتی ہے۔ اور دوسری قسم جس سے فعلِ محظور میں پڑنا لازم نہیں آتا وہ یا غالبا فعل محظور کا سبب بنتی ہو گی، یا غالبا نہیں بنتی ہوگی یا اس میں دونوں صورتوں کا احتمال برار ہو گا اور یہی قسم ہمارے نزدیک سدِ ذرائع کہلاتی ہے۔ تینوں صورتوں میں سے پہلی میں سدِ زرائع کا لحاظ کرنا ضروری ہے، دوسری اور تیسری میں ہمارے اصحاب کے درمیان اختلاف ہے، ان میں سے بعض اس کا لحاظ کرتے ہیں اور بعض نہیں کرتے اور وہ بعض اوقات اسے (التُّهمة البعيدة والذرائع الضعيفة) کا نام دے دیتے ہیں۔
سدِ ذرائع کے قائل کتاب و سنت سے استدلال کرتے ہیں اور قرآنِ مجید میں سے اللہ تعالى کا یہ فرمان ان کی دلیل ہے: ﴿وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ مَرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ [الأنعام: 108] ترجمہ: ''اور جن کی یہ اللہ کے سوا پرستش کرتے ہیں انہیں برا نہ کہو ورنہ وہ بے سمجھی میں زیادتی کر کے اللہ کو برا کہیں گے، اس طرح ہر ایک جماعت کی نظر میں ان کے اعمال کو ہم نے آراستہ کر دیا ہے، پھر ان سب کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر آنا ہے تب وہ انہیں بتلائے گا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے''۔
امام ابن عربي "أحكام القرآن" (2/ 265) میں فرماتے ہیں: علماءِ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ اس آیتِ کریمہ کا معنی ہے: کفار کے معبودوں کو گالی نہ دو ورنہ وہ تمارے معبودِ حق کو گالی دیں گے۔ اور یہ بھی اس کی مانند ہے؛ کیونکہ بغیر حجت کے گالی دینا ذلیل لوگوں کا کام ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: «لَعَنَ اللهُ الرَّجُلَ يَسُبُّ أَبَوَيْهِ». قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، وَكَيْفَ يَسُبُّ أَبَوَيْهِ؟ قَالَ: «يَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ، وَيَسُبُّ أُمَّهُ فَيَسُبُّ أُمَّهُ». ترجمہ: اللہ تعالی کی لعنت ہو اس شخص پر جو اپنے والدین کو گالی دیتا ہے، عرض کیا گیا یا رسول اللہ ﷺ کوئی اپنے والدین کو کیسے گالی دے سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ شخص کسی آدمی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ بھی اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، اور یہ کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ بھی اس کی ماں کو گالی دیتا ہے''۔ اس لئے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اس جائز فعل سے بھی منع فرما دیا جو فعلِ محظور کا سبب بنتا ہے؛ اسی لئے سدِ ذرائع کے باب میں ہمارے علماءِ کرام اس آیتِ کریمہ کے در پے ہوئے ہیں اور یہ ہر وہ عقد ہے جو ظاہرا جائز ہو لیکن فعلِ محظور کا سبب بن رہا ہو، یا اس کے ذریعے سے اس محظور تک پہنچنا ممکن ہو۔۔۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مشرکین نے کہا تھا: اگر تم لوگ ہمارے معبودوں کو گالی دینے سے باز نہ آئے تو ہم بھی تمہارے معبود کو گالی دیں گے، تو اللہ تعالی نے یہ آیتِ کریمہ نازل فرمائی۔
سنتِ مطہرہ میں شبہات سے بچنے اور تقوی اختیار کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے؛ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شبہات میں پڑ گیا، وہ ایک دن حرام میں بھی پڑ جائے گا، جیسا کہ چرا گاہ کے قریب جانور چرانے والا اس بات کے قریب ہوتا ہے کہ اس کا جانور اس چراگاہ میں بھی چرنے لگ جائے، خبردار!، ہر بادشاہ کی ایک مخصوص چراگاہ ہوتی ہے، اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سنن ابنِ ماجہ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اس چیز کو چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈالے اور اسے اختیار کرو جو تمہیں شک میں نہ ڈالے۔ اسے مام ترمذی اور امام نسائی رحمھما اللہ نے روایت کیا ہے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تم ناپسند کرو کہ لوگوں کو اس کا پتہ چلے ۔ (اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے)۔ امام شوکانی نے ان احادیث کو اس باب کی بہترین دلیلیں قرار دیا۔ دیکھیے: "إرشاد الفحول" للشوكاني (2/ 196، ط. دار الكتاب العربي).
مگر جو فقہاءِ عظام سدِ ذریعہ کو نہیں مانتے ان کی رائے یہ کہ اس باب میں ذکر کئے گئے دلائل اجمالی اور عام ہیں جو اس باب کے تمام افراد کا احاطہ نہیں کرتے؛ کیونکہ وسیلہ کی ایک قسم نہیں بلکہ کئی اقسام ہیں، لہٰذا ان پر پانچوں احکام تکلیفیہ لاگو ہوں، پھر یہ غیر منضبط ہیں، اور جو اس میں غور وفکر کرتا ہے اس پر یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے۔
یہ عجیب بات ہے کہ مالکی فقہاء میں سے ایک فقیہ اس معاملے کی وضاحت کر رہا ہے۔ یعنی امام قرافی مالکی رحمہ اللہ "الفروق" (3/ 266) میں فرماتے ہیں: جان لو کہ ذریعہ کسی چیز کے لئے کسی وسیلہ کو کہتے ہیں اور اس کی تین قسمیں ہیں: ایک وہ جس سے منع کرنے پر علماءِ کرام کا اتفاق ہے، اور دوسری جس سے منع نہ کرنے پر علماءِ کرام کا اتفاق ہے ، اور تیسری جس سے منع کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں علماءِ کرام کے درمیان اختلاف ہے.
جس سے منع نہ کرنے پر اجماع ہے؛ جیسے شراب کے ڈر سے انگور کی کاشت کرنے سے منع کرنا اور زنا کے ڈر سے گھروں میں پڑوسگی سے منع کرنا، ان میں سے کسی چیز سے منع نہیں کیا گیا اگرچہ وہ چیز حرام کا وسیلہ ہو۔
اور جس ذریعہ سے منع کرنے پر اجماع ہے؛ جیسے اس شخص کے پاس بتوں کو گالی دینے سے منع کرنا جس کا پتا ہو کہ وہ شخص اللہ سبحانہ وتعالی کو گالی دے گا۔ العیاذ باللہ۔ اور جیسے مسلمانوں کے راستے میں کنواں کھودنا جب یقین ہو یا ظن ہو کہ وہ اس میں گر جائیں گے، اور ان کے کھانے میں زہر ملانا جب معلوم ہو یا ظن ہو کہ وہ اسے کھائیں تو ہلاک ہو جائیں گے۔
جس سے منع کرنے یا منع نہ کرنے کے بارے میں علماءِ کرام کا اختلاف ہے اس کی مثال: عورت کی طرف دیکھنا؛ کیونکہ یہ زنا کا سبب بنتا ہے، اور اسی طرح اس سے بات کرنا، اور اسی طرح بیع مؤجل کی اقسام بھی امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک۔ اور امام مالک رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ سدِ ذرائع انہیں کے ساتھ خاص ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ اس کی کچھ صورتیں ایسی ہیں جن پر اجماع ہے جیسے کہ گزر چکا ہے، جب ایسا ہے تو پتا چلا کہ ہمارے اصحاب یعنی مالکیہ کو شافعیہ کے خلاف سدِ ذرائع کے بارے میں ان آیاتِ مبارکہ: ﴿وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ [الأنعام: 108]،اور﴿وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِي السَّبْتِ﴾ [البقرة: 65] سے استدلال کرنے میں کوئی فائدہ نہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی نے ان کی مذمت اس لئے کی ہے کہ وہ جمعہ کے دن شکار کو روک کر حرام کیے گئے ہفتہ کے دن شکار کرنے کا ذریعہ بنایا کرتے تھے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تعالی کی لعنت ہو یہود پر؛ ان پر چربی حرام کی گئی تو وہ اسے بیچ کر اس کی قیمت کھانے لگے''۔ امام قرافی رحمہ اللہ نے یہاں تک کہا کہ یہ تمام صورتیں جن سے مالکی فقہاءِ کرام اسدلال کرتے ہیں دلیل کا فائدہ نہیں دیتیں، کیونکہ یہ تو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ان میں شریعت نے سدِ ذرائع کا فی الجملہ اعتبار کیا ہے، اور اس بات پر تو پہلے ہی اجماع ہو چکا ہے، اختلاف خاص ذرائع میں ہے وہ ہیں بیوعِ آجال وغیرہ، تو چاہیے یہ کہ خاص محل نزاع کے دلائل ذکر کیے جائیں ورنہ ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور اگر وہ ان متفق علیہ ذرائع پر قیاس کرنا چاہتے ہیں تو ان کی دلیل خاص طور پر قیاس ہونی چاہیے۔ تو اس صورت میں ان پر پھر یہ لازم آتا ہے کہ جامع یعنی قدر مشترک بیان کریں تاکہ ان کے مخالف فارق (قدرِ غیر مشترک) کے ذریعے ان کی دلیل کو رد کرے اور ان کی ایک ہی دلیل ہو جو کہ قیاس ہے، اور وہ نہیں مانتے کہ ان کا محلِ دلیل یہی نصوص ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے پس اس میں غور وفکر کیجئے، بلکہ انہیں چاہیے کہ وہ ان کے علاوہ دوسری نصوص ذکر کریں جو بیوع آجال کے ذرائع کے ساتھ خاص ہوں، لیکن وہ انہی نصوص پر اقتصار کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ اس باب میں مذکورہ احادیث تقویٰ پر دلالت کرتی ہیں اور تقوی ایسا امر ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں۔ کیونکہ تقویٰ کا معاملہ وسیع اور مرغوب فیہ ہے لیکن اس پر عمل کرنا مستحسن ہے، واجب نہیں۔ اس کا ثبوت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی ہے؛ انہوں نے فرمایا: میں نے ایک عورت سے نکاح کیا۔ پھر ایک کالی عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں ( میاں بیوی ) کو دودھ پلایا ہے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے فلانی بنت فلاں سے نکاح کیا ہے۔ اس کے بعد ہمارے یہاں ایک کالی عورت آئی اور مجھ سے کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، حالانکہ وہ جھوٹی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ مبارک مجھ سے پھیر لیا۔ پھر میں آپ ﷺ کے سامنے آیا اور عرض کیا وہ عورت جھوٹی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس بیوی سے اب کیسے نکاح رہ سکے گا جبکہ یہ عورت یوں کہتی ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، اس بیوی کو اپنے سے الگ کر دو“۔ اس حدیث کو امام بخای رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔
امام عینی رحمہ اللہ "عمدة القاري" (11/ 167، ط. دار إحياء التراث العربي) میں فرماتے ہیں: "التلویح" کے مصنف نے کہا: جمہور علماء کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شبہ سے بچتے ہوئے یہ فتویٰ دیا اور شرمگاہ پر اقدام کے خوف سے اسے شک سے بچنے کا حکم دیا اس پر اقدام میں ڈر ہوتا ہے کہ یہ حرام کا ذریعہ نہ بن جائے۔ کیونکہ وہ شخص عورت کی بات کر کے تحریم کی دلیل قائم کر چکا تھا لیکن یہ دلیل قاطع نہیں تھی اور نہ ہی قوی تھی۔۔۔ لیکن آپ نے زیادہ احتیاط والے کام کا مشورہ دیا، اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ جب جب عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی اکرم ﷺ کو اس معاملے کی خبر دی تو آپ ﷺ نے ان سے اپنا چہرہ مبارک پھیر لیا، پس اگر یہ فعل حرام ہوتا تو آپ ﷺ اپنا چہرہ اقدس نہ پھیرتے بلکہ اسے جوابًا حرام قرار دیتے، لیکن جب عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بار بار اس بات کو دہرایا تو آپ ﷺ نے جواب میں انہیں تقوی اختیار کرنے کا حکم فرمایا۔
سدِ ذرائع کا انکار کرنے والے یہ جواب بھی دیتے ہیں کہ وسیلہ کی ایک ہی قسم نہیں بلکہ کئی اقسام ہیں، اس لئے ان پرپانچوں احکامِ تکیلفی لاگو ہوں گے اور پھر یہ غیر منضبط ہیں، اور یہ بات فروعات میں غور وفکر کرنے والوں پر ظاہر ہوتی ہے۔ اسی طرح دوسری رائے والوں نے ان فروعات کے برعکس جو فروعات کا ذکر کی ہیں ان میں سدِ ذرائع کو بطور دلیل نہیں لیا گیا، بلکہ امرِ ظاہر ان کی دلیل ہے، اور جو کچھ انہوں نے ذکر کیا ہے اس کو تسلیم کر لینے سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ "سد الذريعة" غیر منضبط ہے، جس کی وجہ سے اسے ایک مستقل فقہی دلیل کے طور پر لینا مشکل ہے۔
خلاصہ: اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جس ذریعہ سے روکنے کیلئے شرعی نصوص موجود ہیں اس میں ان کی تعمیل کرنا واجب ہے، اور اسی پر اجماع ہے، مثلاً مشرکین کے معبودوں کی توہین کرنے سے ممانعت تاکہ ان کی توہین اللہ تعالیٰ کی توہین کا باعث نہ بنے، اور مخصوص اوقات میں نماز کی ممانعت۔ اور راجح یہی ہے کہ "سدِ ذرائع" ایسی مستقل دلیل نہیں کہ مجتہد فروعی مسائل میں حکم لگاتے وقت جس پر انحصار کرتا ہے۔ اور جب اس میں دلیل بننے کی صلاحیت نہیں ہے تو ترجیح کے عمل میں بھی اسے کوئی دخل نہیں کیونکہ ترجیح کسی چیز کے معتبر ہونے کی فرع ہوتی ہے۔
اور مذکورہ بالا وضاحت کی بنیاد پر: "سدِ ذرائع" مختلف فیہ ادلہ میں سے ایک ہے، اس پر ان چیزوں میں عمل کیا جائے گا جو بالاجماع حرام ہیں، لیکن جن چیزوں میں ضرر نادر اور نایاب ہو یا جن میں فساد کا وہم ہو ان میں "سدِ ذرائع" پر عمل نہیں کیا جائے گا۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas