انتہا پسند جماعتوں کے ہاں تکفیر کے اصول
Question
انتہا پسند گروہوں کے ہاں تکفیر کے اصول کیا ہیں؟
Answer
انتہاپسند گروہوں نے مختف فیہ ظنی امور کو یقینی اور قطعی امور کے قائم مقام کر دیا ہے ، اور اپنے اراکین کی رائے اور ان کے اختیارات کو ایسے اصول بنا دیا ہے جن کے ذریعے وہ عوام اور لوگوں پر حکومت کر سکیں۔ وہ فقہی مذاہب کا انکار کر چکے ہیں اور لوگوں کو بدعتی بنانے اور ان کے اقوال وافعال کو بہت برے امور پر محمول کرنے میں بہت آگے تک چلے گئے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے ظن، تاویل، جہالت اور علمی فقدان کی بنیاد پر عوام کی تکفیر کرنے میں بہت وسیع ہیں، اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ لوگوں کی وہ اس لئے تکفیر کر رہے ہیں کہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ مانتے ہیں، آپ ﷺ کے توسل سے اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، اس کے باوجود کہ احادیثِ مبارکہ میں یہ چیزیں مذکور ہیں۔ آپﷺ کی امت میں سے ایک شخص آکر اپنے اندھے پن کا شکوہ کرنے لگا تو آپ ﷺ نے اس سکھاتے ہوۓ فرمایا جو یوں مروی ہے: "وہ نابینا آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض گزار ہو: آپ ﷺ دعا فرما دیجئیے کہ اللہ مجھے عافیت دے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو میں دعا کر دوں اور اگر چاہو تو صبر کیے رہو، کیونکہ یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ( و سود مند ) ہے“۔ اس نے کہا: دعا ہی کر دیجئیے، تو آپ ﷺنے اسے حکم دیا کہ ”وہ وضو کرے، اور اچھی طرح سے وضو کرے اور یہ دعا پڑھ کر دعا کرے: «اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى لي اللهم فشفعه» "اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیرے نبی محمد جو نبی رحمت ہیں کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں، میں نے آپ کے واسطہ سے اپنی اس ضرورت میں اپنے رب کی طرف توجہ کی ہے تاکہ تو اے اللہ! میری یہ ضرورت پوری کر دے تو اے اللہ تو میرے بارے میں ان کی شفاعت قبول کر". کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو ایسی تعلیم دی ہے جو شرعا درست نہیں ہے یا جو توحید سے متصادم ہے (ہر گز نہیں)؟!